منی لانڈرنگ کیس: جے آئی ٹی نے پانچ کروڑ کی گرانٹ مانگ لی


اسلام آباد: منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو تحقیقات کی غرض سے دی جانے والی رقم کم پڑگئی جس کے بعد ٹیم نے وزارت داخلہ سے فوری طور پر پانچ کروڑ کی اضافی گرانٹ مانگ لی۔

ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی جانب سے سیکرٹری داخلہ کے نام خط میں یہ موقف اپنایا گیا کہ انہیں 20 ارب روپے کراچی میں جے آئی ٹی کا دفتر فعال کرنے کے لیے درکار ہیں۔

کراچی دفتر نئی عمارت میں قائم کیا گیا یہ عمارت ابھی آپریشنل نہیں تھی، بیرون ملک لا فرم اور ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرنا پڑ سکتی ہیں ۔پہلی بار 20ملین روپے مانگے لیکن 10ملین ملے ۔انہوں نے بتایا کہ20ملین کی فراہمی کیلئے دوبارہ درخواست کی لیکن جواب نہیں ملا، تمام اخراجات کی مد میں اب پانچ کروڑ روپے درکار ہیں۔

یاد رہے منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔


متعلقہ خبریں