بے اعتبار موسم کے سبب وادی سون کے کسان مشکلات کاشکار


موسم کا بھروسہ تو کبھی بھی نہیں رہا مگر اب یہ کچھ زیادہ ہی بے اعتبار ہوچکا ہے، موسم کی اس بے اعتباری نے ملک بھر کے کسانوں کو امتحان میں ڈال رکھا ہے کہ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بارش برستی نہیں اور جب فصلیں تیار ہوجاتی ہیں تو پھر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ضلع خوشاب کی وادی سون کے کسان بھی اس نئے چیلنج کا سامنا کررہے ہیں، ایک طرف بارش کی آمد کیلئے مساجد میں نمازوں، جنازہ گاہوں میں جنازوں کے بعد بارش کیلئے دعائیں کرائی جارہی ہیں، مزارات پر کھانے تقسیم کیے جارہے ہیں کہ بارش نہ ہونے سے زمین خشک پڑی ہے۔

ضلع خوشاب کی وادی سون کا قدرتی حسن کمال ہے، اس موسم میں سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ کھبیکی، اوچھالی اور جاہلر کی خوبصورت جھیلیں سیاحوں کو دعوت دے رہی ہیں۔

35 میل پر مشتمل وادی سون شروع تو پدھڑار گاوں سے ہوتی ہے مگر اکثریتی گاوں کا داخلی دروازہ جابہ ہے۔ جابہ میں آجکل کسان مونگ پھلی اور گندم کی فصل کاشت کرکے بارشوں کے منتظر ہیں۔

جابہ میں زرعی زمین کی کاشت بارش پر منحصر ہے مگر وہ معمول اور توقع کے مطابق نہیں ہورہی ہیں جس سے لوگ پریشان ہیں۔ مقامی آبادی سے گفتگو میں سامنے آیا کہ اب مونگ پھلی کی فصل کو کم رقبے پر کاشت کیا جارہا ہے تاکہ غیر موافق موسم کی صورت میں نقصان کم ہو۔

جابہ سے آگے چلیں تو احمد آباد آتا ہے جہاں سے وادی سون کی مرکزی رابطہ سڑک گزرتی ہے مگر یہ جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی ہے،سڑک کی بری حالت کی وجہ سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

احمد آباد کے باسی زیادہ بارشوں کی وجہ سے پریشان ہیں، 2021 میں اچانک معمول سے زائد بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں تقریباً چھ مربع پر کھڑی ان کی نہ صرف تیار فصلیں تباہ ہوئیں بلکہ ان کی قابل کاشت زرعی زمین پر مصنوعی جھیل وجود میں آگئی۔

جن کسانوں کی زمین پر یہ پانی کھڑا ہے ان کے پاس زراعت کے علاوہ کوئی قابل ذکر روزگار نہیں ہے جس کی وجہ سے ان مقامی افراد کو سخت معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سماجی کارکن اور وکیل شکیل شاہ کے مطابق حکومتی نمائندے سروے کیلئے دو سے زائد مرتبہ آچکے ہیں، امداد کے اعلانات بھی کیے گئے مگر اب تک کوئی وعدہ پورا نہیں ہوسکا ہے، کسی متاثرہ کسان یا رہائشی کو کوئی امداد نہیں مل سکی ہے۔

جابہ میں اس کھڑے پانی کی وجہ سے مقامی آبادی کی صرف زراعت ہی متاثر نہیں ہوئی ہے بلکہ اس پانی نے کچھ افراد کو بے گھر بھی کردیا ہے۔ اسی مصنوعی جھیل کے سبب متاثر ہونے والی ایک خاتون صغریٰ بی بی ( فرضی نام) ہیں جو ان دنوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک اور گھر میں رہ رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ابتداء میں مقامی انتظامیہ نے انہیں تسلی دی تھی وہ پانی نکالیں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے اور اب تو امید ہی ختم ہوگئی ہے کیونکہ پانی مسلسل کھڑا رہنے سے گھر گر چکا ہے، اب تو اس کا ملبہ بھی زمین بوس ہوگیا ہے۔

اسی طرح ایک اور خاتون حیات بی بی (فرضی نام) نے بتایا کہ ان کا گھر مکمل طور پر گر چکا ہے، وہ دوبارہ کسی اور جگہ زمین خریدنے یا دوبارہ گھر بنانے کیلئے وسائل نہیں رکھتی ہیں اس لیے انہوں نے یہ علاقہ ہی چھوڑ دیا ہے، وہ اب یہاں سے دوسرے گاوں منتقل ہوگئی ہیں۔

شاعر اور صحافی احمد ندیم قاسمی کی وادی سون میں رات کو تو ہوا میں خنکی ہوتی ہے، موسم سرد رہتا ہے مگر دن کو سخت دھوپ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آلو اور گندم کی فصلیں بار بار پانی مانگ رہی ہیں، مہنگائی کے سبب کسانوں کیلئے بار بار پانی دینا ممکن نہیں ہے۔

مقامی گاوں چٹہ کے کسان ملک اسد کے مطابق ہمارے گاوں کی تمام فصلوں کا انحصار بارش پر ہوتا ہے جو بروقت نہ ہونے اور کم ہونے کے باعث شدید متاثر ہوتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس بار بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں گندم کی پیداوار میں بڑی کمی کا خطرہ ہے۔

چٹہ سے ہی تعلق رکھنے والے ملک آصف پرویز کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جب فصل تیار کھڑی تھی تو ژالہ باری ہوگئی جس سے فصل کو بہت نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ اس بار بہت کم بارشیں ہوئی ہیں لیکن خدشہ ہے کہ کہیں یہ سلسلہ دوبارہ تیار فصلوں کے موسم میں نہ شروع ہوجائے۔

انہوں نے اپنے جیسے دیگر چھوٹے کسانوں کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ موسیماتی تبدیلی کے سبب چھوٹے کسان مسلسل خطرات کا سامنا کررہے ہیں کہ جب کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں تو وہ اگلی فصل کی بوائی کیلئے بیج، کھاد خریدنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔

نوشہرہ میں زراعت کے شعبے سے ہی وابستہ اورنگزیب اعوان نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے واقعات کسانوں کو بہت شدت سے متاثر کررہے ہیں، کسان ابھی ایک مشکل سے نکل رہے ہوتے ہیں تو دوسری متاثر کردیتی ہے لیکن کسانوں کی مدد اور تحفظ کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاسکا ہے۔

اورنگزیب اعوان نے اس بات پر زور دیا کہ کسانوں کی تباہی کی وجہ صرف موسمیاتی تبدیلی نہیں ہے بلکہ روایتی طریقوں سے کاشتکاری اور زمین کے استعمال کی ناقص منصوبہ بندی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔


متعلقہ خبریں