کمزور پراسیکیوشن کے باعث فیصلوں میں غلطیاں ہوجاتی ہیں، سابق وزیر قانون



اسلام آباد: ‏سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں جو لوگ پراسیکیوشن کرتے ہیں ان میں ٹریننگ کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ اکثر غلط فیصلے کر دیتے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ‘بڑی بات’ میں میزبان عادل شاہزیب سے گفتگو کرتے ہوٸے بیرسٹر علی ظفر کا آسیہ بی بی کیس کے فیصلے کی مناسبت سے بات کرتے ہوٸے کہنا تھا کہ جب کسی شخص کو غلط فیصلے کی بنیاد پر سزا بھگتنی پڑے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو معاوضہ ادا کرے۔

‏دوسری جانب رہنما پاکستان پیپلز پارٹی نیٸر بخاری کا پروگرام میں گفتگو کرتے ہوٸے کہنا تھا کہ پی پی پی بھی اس بات کی حامی ہے کہ جو بات آٸین اور قانون سے متصادم ہو اس پر ردعمل آنا ضروری ہے۔

نیٸر بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس بات کی تاٸید کی ہے کہ ملک کے مساٸل حل کرنے کے لیے خلوص نیت سے اور مفاہمت کی سیاست پر عمل پیرہ ہوتے ہوٸے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے چاہیے۔

وزیراعظم کے گزشتہ خطاب کی جانب اشارہ کرتے ہوٸے رہنما پی پی پی کا یہ بھی کہنا ‏تھا این آر او کچھ نہیں ہے اور نہ ہی اس معاملے کی کوٸی حقیقت ہے۔

نیٸر بخاری نے کہا کہ پی پی پی کو اگر کوٸی ڈیل کرنی ہوتی تو آج ہم حکومت میں ہوتے مگر ایسا نہیں۔ ہم ہمیشہ سے عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔

پروگرام میں شریک مہمان سینیٹر حمداللہ کا اپوزیشن جماعتوں کے گٹھ جڑ میں مولانا فضل الرحمٰن کے مثبت کردار کی بات کرتے ہوٸے کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام سے قبل جمیعت علماۓ اسلام وجود میں آ چکی تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن ملک کے منجھے ہوٸے سیاستدان ہیں۔ آج کے دور کے سیاستدان ان کی سیاست کے بارے میں یہ راٸے نہیں دے سکتے کہ مولانا کو سیاست کرنی نہیں آتی یا انکی سیاست بلاجواز ہے۔


متعلقہ خبریں