گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی، عدالت پولیس پر برہم

فوٹو: فائل


کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

گمشدہ بچوں کی بازیابی کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں فوکل پرسن ڈی آئی جی کرائم برانچ امین یوسفزئی اور دیگر افسران پیش ہوئے۔

عدالت نے بچوں کی عدم بازیابی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا اور کہا کہ آپ کی کیس کو لے کر کارکردگی پر عدالت مطمئن نہیں ہیں۔

عدالت نے سماعت کے دوران فوکل پرسن سے استفسار کیا کہ وہ گمشدہ بچوں کی بازیابی کے معاملے میں پیش رفت کے حوالے سے تفصیلات فراہم کریں، جس پر ڈی آئی جی کرائم برانچ نے جواب دیا کہ وہ بچوں کی بازیابی کی کوششں کر رہیں ہیں۔

ڈی آئی جی امین یوسفزئی نے عدالت میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جتنے بھی نئے کیسز دائر ہوئے ہیں ان پر پیش رفت ہورہی ہے اس کے علاوہ سالوں سے گمشدہ بچوں کے حوالے سے بھی اہم اقدامات اٹھائے جا رہیں ہیں۔

ڈی آئی جی امین یوسفزئی نے عدالت میں کارروائی کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ کی جانب سے بچوں کی بازیابی کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے اور دیگر صوبوں سے بھی رابطے میں ہیں کیس کے حوالے سے ان کا بھی تعاون ہمیں حاصل ہے مزید براں بچوں کی جلد از جلد بازیابی کے لیے اجلاس بھی کیے جا رہیں ہیں۔

جس پر جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹونے ڈی آئی جی کی کیس کے حوالے سے کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک بار پھر عدالت میں یہ پرانے کاغدات لے آئے ہیں جس میں اب تک ایک یا دو بچوں کی بازیابی کی گئی ہے۔

سماعت کے دوران روشنی پیلپ لائن کی وکیل نے بچوں کی بازیابی کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا، وکیل کا کہنا تھا کہ بہت سارے گمشدہ بچوں کی پولیس آیف آئی آر بھی درج نہیں کرتی، بچوں کا لاپتہ ہونا پاکستان کا ایک سنگین معاملہ ہے مگر پولیس پھر بھی ہر بار ایک ہی رپورٹ عدالت میں پیش کر دیتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی پولیس کو بچوں کی بازیابی کے لیے 15 نومبر کی ڈیڈ لائن دے کر کیس کی سماعت متعلقہ تاریخ تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں