سپریم کورٹ نےقطر سے ایل این جی ڈیل پر رپورٹ طلب کرلی

فوٹو: فائل


 اسلام آباد: وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان جمعہ کو اضافی ٹیکسوں کے متعلق از خود نوٹس کیس میں طلب کیے جانے پرعدالت عظمی میں پیش ہو گئے۔ عدالت عظمی نے قطر سے کیے گئے ایل این جی معاہدہ کی شفافیت سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافی ٹیکس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

جمعہ کی صبح سماعت کے شروع میں چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر پیٹرولیم کو بلائیں ان سے پوچھتے ہیں کہ پی ایس او میں کیوں اتنی تنخواہیں دی جا رہی ہیں؟ اور ان کو بھی بلا لیں جو بڑی تنخواہیں لیتے ہیں۔ عدلت نے وزیر پٹرولیم کو فوری طلب کر لیا۔

وقفہ کے بعد جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وزیر پٹرولیم غلام سرور خان عدالت میں پیش ہوئے تو انہیں روسٹرم پر بلا لیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ کراچی میں چل رہا تھا، پتہ چلا پی ایس او میں بندربانٹ کی گئی، ہمیں بتایا گیا کہ اعلیٰ مراعات یافتہ لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور ایم ڈی صاحب کی تنخواہ 37 لاکھ روپے بتائی گئی۔

وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ دن رات کام کریں اور کرپشن اور خرابی کو دور کریں۔

غلام سرور خان نے کہا عدالت نے طلب کیا تو ہم حاضر ہوگئے، جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل کریں گے، زندگی کا مقصد یہی ہے انشااللہ کام کریں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کو کچھ دینے کا وقت آگیا، مغفرت ہمیں اوپر جاکر ملنی ہے، اگلی سماعت پر اقدامات ہونے چاہئیں۔

پی ایس او کا آڈٹ کرانے کا حکم

عدالت نے وزیرپٹرولیم کو حکم دیا کہ پی ایس او میں بھرتیوں کے حوالے سے رپورٹ دیں، ادارے کا آڈٹ کروا کے دیں۔ سرور خان صاحب آپ منتخب ہو کر آئے ہیں،  مہنگائی کا جواب آپ لوگوں نے دینا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کے غلط استعمال کی تحقیقات کروائیں اوربتائیں کہ ایم ڈی کس لیے 37 لاکھ تنخواہ لے رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں عدالت اور حکومت دونوں احتساب کا نعرہ لگاتے ہیں، میں نے تو ابھی تک کوئی ریزلٹ نہیں دیا، ہم نے پی آئی اے کی انکوائری کروا کر نیب کو دی ہے۔

قطر سے ہونے والے ایل این جی معاہدہ سے متعلق رپورٹ طلب 

سپریم کورٹ نے پی ایس او بورڈ سے ایل این جی معاہدہ سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے حکم دیا کہ بتایا جائے کہ قطر سے معاہدہ کرتے وقت شفافیت کو مدنظر رکھا گیا کہ نہیں۔ عوام میں یہ بحث چل رہی ہے کہ قطر سے کیے گئے معاہدہ میں شفافیت نہیں برتی گئی۔

عدالت نے نیب سے بھی ایل این جی معاہدہ سے متعلق زیر التوا انکوائریز کی رپورٹ طلب کر لی۔ ہدایت کی گئی کہ پی ایس او کے اندر اقرباء پروری اور سفارش پر کی گئی بھرتیوں کی رپورٹ بھی جمع کرائی جائے۔

عدالت نے وزیر پٹرولیم کو آڈٹ رپورٹ کے مطابق عمل درآمد کر کے رپورٹ دینے کا حکم دے دیا۔

صبح سماعت کے شروع میں جب اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بارے میں سمری اوگرا بنا کر بھیجتا ہے۔ تو چیف جسٹس نے  اٹارنی جنرل سے کہا آپ آفیسر آف کورٹ ہیں، آپ روسٹرم سے ہٹ جائیں، آپ نے جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق سب اچھا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جو پی ایس او میں کام کر رہے ہیں وہ فرشتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ پی ایس او والے فرشتے نہیں ان سے بہت دور ہیں، لیکن رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس

پی ایس او کے نمائندہ بختیار کاظمی نے عدالت کو بتایا کہ پیٹرول 62 روپے فی لیٹر میں حاصل کیا جاتا ہے۔ 27 روپے چھ پیسے کے مختلف ٹیکسز اور دس روپے 17 پیسے فریٹ چارجز ہوتے ہیں، اس سارے عمل میں ایک روپیہ 31 پیسے پریمیئم ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ایم ڈی ارسطو تھا؟ کیوں اس کو عہدہ دیا گیا۔ کہاں ہے وہ ایم ڈی جو 37 لاکھ روپے لیتا تھا؟ وکیل پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ وہ ریٹائرڈ ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ آپ نجی وکیل ہیں کیوں ایسے کیس میں پیش ہو رہے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ ہے کہ سرکاری محکموں کے مقدمات میں نجی وکیل پیڈ نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ انہوں نے کتنی فیس لی ہے۔ اس پر وکیل نے کہا کہ 15 لاکھ فیس لی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں اور آپ کو اتنی فیس دی گئی۔

چیئرمین نیب چیف جسٹس کے چیمبر میں طلب

چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو بھی پیٹرولیم مصنوعات کیس میں چیمبر میں طلب کرلیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے نیب پر بھی برہمی کا اظہار کہا اور ریمارکس دیے کہ نیب سوائے آنے جانے کے کیا کر رہا ہے؟ چیئرمین نیب آ کر ہمیں بتائیں کہ نیب نے سات ماہ کے دوران کون سا کیس منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔

عدالت عظمی کے سربراہ نے کہا کہ نیب غیر قانونی تقررریا ں کرنے والوں کو سزا دلوائے تاکہ باقی لوگ سبق حاصل کریں۔ قوم کو علم ہو کہ ایسی تقرریاں کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ نیب بلا کر لوگوں کو بٹھا دیتا ہے، حتمی نتیجہ نہیں نکلتا۔

 عدالت نے نیب کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو حکم دیا کہ وہ چیمبر میں آ کر کارکردگی پر بریفننگ دیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ  فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری سے کیا نتیجہ نکلا؟ نیب سے نتائج درکار ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا۔ نیب سے صرف تحقیقات کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کی خبر آتی ہے۔  نیب کو عدالت نے بہت سپورٹ کیا ہے، ادارہ سستی ختم کرے اور نتائج دے، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا نیب کا گند اب عدالت نے صاف کرنا ہے؟


متعلقہ خبریں