اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت نمبر دو میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت ملتوی ہو گئی ہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کے سامنے نواز شریف کی آج حاضری سے استثنی کی درخواست پیش کی گئی جو انہوں نے منظور کر لی۔
سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے استعاثہ کے اہم گواہ اور پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ایم ایل اے کی آفس کاپی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو جمع کروائی تھی؟ سربمہر لفافہ کس رنگ اور کس طرح کا تھا؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ وہ دفتری استعمال کا لفافہ تھا، ایک سال پرانی بات ہے اب یاد نہیں۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ والیم ٹین کس کے سامنے سیل ہوا تھا، کوئی عدالتی نمائندہ موجود تھا؟ جس پر واجد ضیاء نے ایک بار پھر کہا کہ نہیں مجھے یاد نہیں یے۔
نواز شریف کے وکیل نے پوچھا کہ والیم ٹین رجسٹرار سپریم کورٹ کی موجودگی میں سیل کیا گیا یا پہلے سے کردیا گیا تھا؟ جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ آپ ڈیڑھ سال پرانی بات پوچھ رہے اب مجھے یاد نہیں۔
خواجہ حارث نے پھر پوچھا کہ کیا آپ کے سامنے والیم ٹین سیل ہوا؟ جس پر گواہ نے جواب دیا کہ والیم ٹین میرے سامنے سیل کیا گیا، یہ نہیں کہہ سکتا سپریم کورٹ میں ریکارڈ پہنچانے سے پہلے والیم ٹین سیل کیا گیا۔
نیب پرایسکیوٹر کا اعتراض
خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کا وہ آرڈر کہاں ہے جس میں والیم ٹین کو سیل یا پبلک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ اس پرنیب کے پراسیکیوٹر نے کہا اگر والیم ٹین نہ ملنے پرانہیں اعتراض تھا تو اس کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دینی چاہئیے تھی، خواجہ صاحب اب اس سے متعلق گواہ سے سوالات نہیں کر سکتے۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گواہ نے جرح کے دوران ایم ایل اے کا ذکر کیا اور بتایا کہ والیم ٹین میں خط و کتابت ہے، جب گواہ نے جرح میں ایک چیز کا ذکر کیا ہے تو اس سے متعلق سوال پوچھنا میرا حق ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ والیم ٹین کا معاملہ اب جرح کے دوران طے نہیں کیا جاسکتا۔ خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کا کوئی حکم نہیں کہ والیم ٹین سیل کیا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا حکم موجود ہے کہ والیم ٹین پبلک نہ کیا جائے۔
نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے موقف اختیار کیا کہ دفاع کو والیم ٹین کے حصول کے لیے اس وقت درخواست دینا چاہیے تھا جب انہیں کاپیاں تقسیم کی گئی تھیں، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں ابھی درخواست دے دیتا ہوں، میں نے بے معنی اور بے تکے سوال نہیں پوچھنے، والیم ٹین سے متعلق تین سے چار سوال اور پوچھوں گا۔
نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ ایم ایل اے اور سپریم کورٹ کا آرڈر دو مختلف چیزیں ہیں۔ واجہ حارث نے کہا کہ مجھے سوال کرنے دیں اگر وہ متعلقہ نہ ہوئے تو آپ ڈیلیٹ کر دینا، میں کوئی بے معنی بات نہیں کروں گا۔
خواجہ حارث کے سوال پر واجد ضیاء نے بتایا چوبیس جولائی 2017 کو والیم ٹین بائنڈنگ کی شکل میں سپریم کورٹ میں جمع کرایا، والیم ٹین کی تین سیلڈ کاپیاں دس جولائی 2017 کو جمع کرائی تھیں۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا دس جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں کیس سماعت کے لیے فکس ہوا؟ اس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ واجد ضیاء سپریم کورٹ میں اس کاروائی کا حصہ نہیں تھے، واجد ضیاء سے اس کا روائی سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا۔
واجد ضیاء نے کہا کہ آپ پھر اس سماعت کی تاریخیں بھی پوچھیں گے، میں اس کاروائی کا حصہ نہیں تھا، اتنا زیادہ اس سے متعلق یاد نہیں، میرے علم میں صرف اتنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد سماعت ہوئی۔
اس پر خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ اس دوران کسی سماعت میں عدالت میں موجود تھے؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ میرا نہیں خیال کہ میں 10 تاریخ کے بعد کسی سماعت میں گیا۔
والیم ٹین کی کاپی مجھے دکھائی گئی تھی
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ والیم دس کی ایک کاپی اس سماعت کے دوران مجھے دکھائی گئی؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ میڈیا پر سنا تھا کہ آپ کو کاپی دکھائی گئی ہے۔
نیب پراسیکوٹر نے ایک بار پھر اعتراض کیا اور کہا کہ واجد ضیاء کہہ چکے وہ اس سماعت میں نہیں تھے اس کے باوجود ان سے اس کے متعلق سوال پوچھ رہے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کاپی سیل تھی لیکن وہ ہمیں دکھائی گئی۔ کہا گیا تھا کہ آپ کو کاپی چائیے تو بھلے لے جائیں، ہم نے کہا تھا کہ ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا اس لیے والیم 10 کی کاپی واپس کر دی۔
اس موقع پر احتساب عدالت کے جج نے نیب کا اعتراض منظور کرتے ہوئے کہا کہ گواہ جس سماعت میں موجود ہی نہیں تھے اس سے متعلق سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔
عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ریفرنس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
نواز شریف عدالت سے غیر حاضر
سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے جنازے اور رسم قل میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا ہیں جس کی وجہ سے آج کی سماعت میں وہ پیش نہیں ہوئے۔
گزشتہ سماعت پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست منظور کی گئی تھی۔ نوازشریف کی طرف سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے استثنی کی درخواست دائر کی تھی۔
شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز
سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس سے متعلق دیے گئے فیصلہ کے بعد نیب نے شریف خاندان کے خلاف تین مختلف ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔
قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر کردہ ان ریفرنسز میں سے ایک ایون فیلڈ پراپرٹی میں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور دامار کیپٹن (ر) صفدر کو سزائیں ہو چکی ہے۔
نیب کی جانب سے دائر کردہ دیگر ریفرنسز العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ پر احتساب عدالت میں سماعت جاری ہے۔
تینوں افراد احتساب عدالت کی سنائی گئی سزائیں کاٹنے کے لیے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ گیارہ ستمبر کو بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے باعث نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پیرول پر رہائی کے بعد اپنی رہائش گاہ جاتی امرا میں مقیم ہیں۔