سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعےعدالت میں پیش کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم نے آسمانی رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی لارجر بینچ میں شامل تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔ آرڈیننس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ،ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟
نیب ترامیم کیس ، عمران خان کو ویڈیو لنک سے پیش ہونیکی اجازت
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التواء ہے، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کیا ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست سماعت کےلیے منظور ہوئی؟ جس پر مخدوم علی نے بتایا جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونیوالی سماعتوں کا حکمنامہ طلب
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل رکارڈ منگوا لیں، دوران کیس چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے پوچھا کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا مجھے فیس نہیں چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ اسلام آباد ہاٸیکورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست کب دائر ہوئی ؟ وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ درخواست 4جولاٸی 2022 کو دائر ہوئی اور سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولاٸی 2022 کو لگا، سپریم کورٹ میں درخواست کی سماعت 19 جولاٸی 2022 کو ہوئی
قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے پوچھا مخدوم علی خان صاحب، نیب ترامیم کا کیس اتنا لمبا عرصہ کیوں چلا تھا؟ کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ مخدوم علی نے جواب دیا میرے علاوہ بہت سے وکلا نے دلائل دیئے تھے ، کل 53 سماعتیں ہوئیں، نیب ترامیم کالعدم قراردیتے وقت حقائق کادرست جائزہ نہیں لیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترامیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا 1999 میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا مارشل لاء کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا۔
اس موقع پر عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیس پر ہونے والی سماعتوں کا حکم نامہ طلب کر لیا۔
دوران سماعت عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلا کر چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی، بانی پی ٹی آئی کے شکایت پر اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ضمنی انتخابات کیلئے امیدواروں کو بیان حلفی دینے سے روک دیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکے اسکے خلاف بینچ بنا کردیگر مقدمات سنتے رہنا استحصال نہیں، وفاق کے وکیل مخدوم علی نے کہا آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا، چیف جسٹس نے کہا اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں؟۔
پگڑیاں فٹبال بنا دی گئی ہیں، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ پراکسی کے تحت ججز کو دھمکی دیں گے ، جسٹس اطہر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہے تھا، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں ، قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا دو تشریحات ہوسکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا۔
ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا ، جسٹس جمال مندو خیل
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے،جسٹس اطہر نے کہا کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں، پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کی شق 2 کےتحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022 کے فالو اپ پر 2023 کی ترامیم بھی آئیں تھی ،عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی ، چیف جسٹس نے کہا کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں، یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے، ہم ان سوالات پر سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے جواب لیں گے، سابق چیئرمین پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔
چیئرمین نکات نوٹ کر لیں ان سے جواب لیں گے ، چیف جسٹس
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا کسی بل پرکوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلے کیخلاف ووٹ دے سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا پھر آگے بڑھیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پگڑیاں فٹبال بنا دی گئی ہیں، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ پراکسی کے تحت ججز کو دھمکی دیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔