معاشرے کے ماتھے پر ایک بدنما داغ پیشہ ور گداگر، حقدار امداد سے محروم

beggar

(تحریر:شازیہ انور) وقت کیساتھ ساتھ بہت سی چیزیں بدلتی ہیں لیکن بدل نہیں رہا تو رمضان المبارک میں بھکاریوں کا بڑے شہروں میں حملہ آور ہونا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جہاں کھڑے ہوجائیں گداگروں کی ایک جماعت آپ پر حملہ آور ہوجاتی ہے،روزانہ ہر عمرکی خواتین، بچے اور مردوں پر مشتمل گداگر جو یا تو معذور ہوتے ہیں یا گیٹ اپ کے ذریعے خود کو اندھا اور اپاہج بنا کر شہر کے مختلف بازاروں،اسپتال، سگنلز، شاپنگ سینٹر، مسجدوں اور بازاروں میں گروہ در گروہ شہریوں پر ہلہ بول دیتے ہیں۔

پاکستان میں رمضان کا مبارک مہینہ جہاں اپنے ساتھ رحمتیں اور برکتیں لاتا ہے، وہیں ایک عذاب پیشہ ور بھکاریوں کی صورت میں اس مہینے نازل ہوتا ہے،یہ وہ مافیا ہے جو جونک کی طرح لوگوں سے چمٹ کر رہ جاتی ہے۔

آپ کچھ کر لیں یہ بغیر لئے نہیں ٹلیں گی، اگر کار کے شیشے بند بھی ہوں تو اس وقت تک کھٹکھٹاتے رہیں گے جب تک کچھ وصول نہ کر لیں اور دور کھڑے پولیس اہلکار شہریوں کی بے بسی کا مضحکہ اڑاتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ سب بغیر انتظامیہ اور پولیس کی اعانت کے بغیر ممکن ہے؟ بالکل نہیں یہ ایک وسیع کاروبار ہے جس میں سے سب کو حصہ ملتا ہے۔

بچی کے علاج کیلئے باپ پولیس کی وردی پہننے پر مجبور ہو گیا

ہر ٹریفک سگنل اور بازاروں میں بھکاریوں کے جمگھٹے ٹریفک کانسٹیبل اور پولیس کے سامنے خاندان سمیت ڈیرہ ڈالے بیٹھے نظر آتے ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ہر سگنل‘ ہر بازار بکا ہوا ہے جہاں خریدنے والے کے علاوہ کوئی دوسرا فقیر پر بھی نہیں مارسکتا۔

بھکاریوں کو پک اپ اور رکشوں میں پک اینڈ ڈراپ ہوتے ہوئے تو ہم نے خود دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ اچھا خاصا انسان رکشہ سے اتر کر زمین پر گھسٹنا شروع کر دیتا ہے،میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بھکارن۔

یہ اتنی جاندار اداکاری کرتے ہیں کہ دینے والے کو دیتے ہی بن پڑتی ہے۔آپ ان سے دس بیس روپے دے کر جان نہیں چھڑا سکتے‘ کم از کم سو پچاس روپے رکھئے ان کے ہاتھ‘ کوئی زیادہ کاریگر ہوگا تو وہ آپ سے راشن یا پھر دوا کے پیسے لئے بغیر نہیں ٹلے گا۔اگر آپ ان کی من پسند چیز ان کو نہ دیں تو یہ آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ آپ کو گالیاں بھی سننے کو مل جائیں۔

معاشرے کے ماتھے پر ایک بدنما داغ یہ پیشہ ور بھکاری اور گداگرمساجد کے باہر کھڑے ہوکر اللہ کے نام پر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں لیکن انہیں مسجد کے اندرجاکر اللہ سے مانگنے کی توفیق نہیں ہوتی اور کیوں ہو، اس کیلئے انہیں محنت کرنا ہوگی اور محنت کئے بغیر جن لوگوں کو لاکھوں کی آمدنی ہورہی ہو وہ محنت کے جھنجٹ میں کیوں پڑیں گے۔

گندم خریداری، پنجاب حکومت کا 552 ارب روپے قرض لینے کا فیصلہ

ہم مسلمان مذہب کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں، اللہ کے نام پر اگر کوئی آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو اسے خالی نہیں لوٹاتے، لوٹانا بھی نہیں چاہئے لیکن اس بات کا کیسے پتاچلے کہ مستحق کون ہے اور کون نہیں۔ بھکاریوں کے اس جم غفیر میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کون اور کیسے کرے؟

درحقیقت ہم ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دے کر ان سفید پوش افراد کی حق تلفی کرتے ہیں جو ضرورت مند اور مستحق تو ہوتے ہیں لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ کیا ہمارے اطراف میں وہ سفید پوش نہیں جو اپنی عزت نفس کی خاطر سوال بھی نہیں کرتے۔

آج کل کراچی میں ان ”مستحقین“ کو شتر مرغ کے گوشت کی کڑاہی کی سحری کرائی جا رہی ہے اور اس کی مختلف تاویلیں بھی پیش کی جا رہی ہیں جس کی بحث میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ افطار اور سحر میں لمبے لمبے دسترخوان لگتے ہیں اس کے علاوہ بھی سارا سال شہر کے مختلف رفاہی ادارے ان نام نہاد بھوکوں کو مٹن قورمہ کھلاتے ہیں جبکہ ایک سفید پوش دال روٹی کو ترسا ہوا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق روزانہ دس سے پندرہ ہزار نئے لوگ کراچی میں نازل ہورہے ہیں آرہے ہیں اور شہر کے وسائل پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔مختلف کنٹریکڑز کیلئے دیہاڑیوں پر کام کرنے والے یہ پیشہ ور بھکاری رمضان شروع ہوتے ہی ٹرکوں‘ بسوں اور ٹرینوں میں بھر کر اپنے پسندیدہ ترین شہر کراچی کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں انہیں پوری امید ہوتی ہے کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

شہریوں کی جانب سے بھی ان گداگروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو خوف خدا میں مبتلا ہوتے ہیں اور نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ شہری جن سے ان گداگروں کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی چھوٹی چھوٹی رقوم کی صورت میں ہزاروں روپے ان پر لٹادیتے ہیں۔

کسی کیلئے بھی ایک اجنبی شہر میں جا بسنے کی اس سے بڑی کشش اور کیا ہو سکتی ہے کہ نئے شہر میں بغیر محنت کے اعلی قسم کے کھانے مل جائیں‘ رہائش کیلئے صاف ستھرے فٹ پاتھ‘ پل اورکچی بستیاں موجود ہوں جہاں مفت میں سیوریج کے سہولتیں‘ گیس اور بجلی بھی مل جائیں۔ اب خواہ اس کا بوجھ مقامی رہائشیوں کو ہی کیوں نہ اٹھانا پڑجائے۔

ایک شخص کیلئے دس روپے دینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والے کراچی سے اکٹھی کی جانے والی بھیک اربوں روپے بنتی ہے یعنی کراچی آنے والے پیشہ ور بھکاری صرف دکانوں سے ہی سالانہ اربوں روپے کمالیتے ہیں۔

اعداد و شمارکے مطابق یہ پیشہ ور گداگر صرف کراچی کی دکانوں سے سالانہ 32 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد کماتے ہیں،32 ارب 40 کروڑ روپے سے 20، 20 ہزار مالیت کے راشن کے تھیلے خریدے جائیں تو 16 لاکھ 20 ہزار تھیلے بنوائے جاسکتے ہیں، ان تھیلوں سے سالانہ ایک لاکھ 35 ہزار سفید پوش خاندانوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔

تجارتی خسارہ میں سالانہ بنیادوں پر 24.94 فیصد کمی، برآمدات میں اضافہ ریکارڈ

اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ شہر میں انسداد گداگری مہم چلائے جانے کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ معاملہ صرف بھیک مانگنے تک محدود نہیں رہتا بلکہ چوری، ڈکیتی اور بچوں کے اغواکے و اقعات میں بھی اضافہ عمل میں آجاتا ہے۔

ہم اہل ایمان اللہ کے نام پر ہاتھ پھیلانے والوں کو خالی ہاتھ لوٹانا ہی نہیں چاہتے ہیں لیکن پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے دلوں میں درآنے والے شکوک و شبہات انہیں حقیقی ضرورت مندو ں سے دور رہنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

لاکھوں روپے کا ٹیکس دینے والوں کا حق ہے کہ وہ یہ ماہ مبارک سکون اور اطمینان کیساتھ گزار سکیں‘ حکام بالا کو چاہئے کہ وہ باقاعدہ کریک ڈاؤن کے ذریعے پیشہ وروں کی بیخ کنی کریں اور شہریوں کو پرسکون انداز میں عبادات کا حق دیں۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں