بہاولپور ضلع کے 15 حلقوں پر صرف ایک خاتون امیدوار انتخابی میدان میں اتریں گی


بہاولپور(فاروق ملک) بہاولپور ضلع کے 15 حلقوں پر صرف ایک خاتون امیدوار انتخابی میدان میں اتریں گی۔

الیکشن 2024،پی ٹی آئی کے2 امیدوارپیپلز پارٹی میں شامل

ملک بھر کی طرح بہاولپور میں بھی سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے، جنوبی پنجاب کے صحرائی خطے اور شہر نواب کی قومی اسمبلی کی پانچ جبکہ صوبائی اسمبلی کی دس سیٹیں ہیں جن پر خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور حالیہ انتخابات میں خواتین کی کم نمائندگی کے بعد لوگوں کے ذہن میں سوال ہے کہ آخر بہاولپور کی خواتین عملی سیاست میں کیوں نہیں آتیں؟ انہیں سیاسی میدان میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

پنجاب کی سب سے بڑی ڈویژن بہاولپورجس کا مرکزی ضلع بہاولپور بیاسی ہزار مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے, ضلع کی کل آبادی تقریباً تینتالیس لاکھ ہے, جس میں تئیس لاکھ بائیس ہزار سے زائد ووٹ رجسٹر ہیں اور ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد دس لاکھ ستاسٹھ ہزار نو سو تین ہے، ضلع بھر میں تقریباً ہر پارٹی کے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جن کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹس دئیے گئے ہیں لیکن وہ تمام مرد امیدوار ہیں، خواتین کو ہر سیاسی اور مذہبی پارٹی نے یکسر نظر انداز کردیا ہے۔

شارجہ ، پاکستانی خاندان کے گھر میں آگ لگنے سے 2افراد جاں بحق

بہاولپور میں پاکستان تحریک انصاف کی شہلا احسان رابعہ ملک، عذرا شیخ انتہائی سرگرم کارکن رہی ہیں جبکہ سمیرا ملک بھی پی ٹی آئی کی انتہائی متحرک کارکن تھیں لیکن نو مئی کے واقعات کے بعد وہ پارٹی کو خیر آباد کہہ گئی ہیں۔اسی طرح پروین مسعود بھٹی، فوزیہ ایوب قریشی، حسینہ ناز آمنہ عاقل، مسلم لیگ ن کی سرگرم خواتین جبکہ پیپلزپارٹی سے سائرہ عباسی کا نام قابل ذکر ہے لیکن اس کے باوجود تمام خواتین کو یکسر نظر انداز کرنا خواتین کے حقوق کے علمبردار سیاسی و مذہبی جماعتوں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے ۔۔

بہاولپورنیشنل اتحاد کی چیئرپرسن آسیہ کامل بطورآزاد امیدوار حلقہ این اے 168 اور پی پی 253 سے الیکشن لڑ رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تھانے کچہری کا خوف دلا کر لوگوں سے ووٹ لئے جاتے ہیں اگر کوئی خاتون ووٹ مانگنے جائے تو آگے سے لوگ یہی سوال کرتے ہیں کہ آپ خاتون ہوکر ہمارے تھانے کچہری کے معاملات کیسے ٹھیک کرینگی؟ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اس بیلٹ میں خواتین الیکشن میں حصہ نہیں لیتیں یا فیملی کی طرف سے اجازت نہیں ملتی حالانکہ پاکستان بنانے میں بھی بہت ساری خواتین کا ہاتھ ہے، کچھ سیاسی گھرانوں کی خواتین جن کو باپ یا شوہر کی سپورٹ ہوتی ہے ان کو زیادہ مشکلات نہیں ہوتی لیکن میرے جیسی مڈل کلاس خاتون جس کا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، مردوں کے درمیان جانا پڑتا ہے، ڈور ٹو ڈور جاکر بازار اور گھروں میں جاکر ووٹ مانگنا اتنا آسان نہیں ہے، خاص طور پر لوگوں کو قائل کرنا ووٹ کیلئے انھیں کہنا کہ میں آپکی نمائندہ بننا چاہتی ہوں آگے سے انکا سوال ہوتا ہے کہ ہمارے تھانے کچہری پرہیں پنچائیت کے معاملات ہوتے ہیں پولیس سے اپنے بندے چھڑوانا آپ کیسے سنبھالیں گی یہ سب کچھ؟

سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کےذخائر میں 24کروڑ30لاکھ ڈالرکا اضافہ

آل پاکستان مسلم لیگ کی سابقہ نیشنل اسمبلی کی امیدوار شازیہ نورین بھی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہاں لوگوں کا ووٹ دینے کا طریقہ کار الگ ہے، وہ سوچتے ہیں ایک بڑی گاڑی سے اتر کر کڑکڑاتے کپڑوں میں ملبوس بندہ ہی ان کے ووٹ کا صحیح حقدار ہے، لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ انکا ووٹ بہت اہم اور قیمتی ہے، میں اکثر جگہوں پر گئی ہوں کمپیئن کے دوران لوگ پیسے لے کر بھی ووٹ دیتے ہیں، ان کا ایک ہیڈ ہوتا ہے جو سب کے اکٹھے پیسے لے لیتا ہے اور انکا ووٹ بیچ دیا جاتا ہے، کچھ جگہوں پر تو حلف بھی لیا جاتا ہے، ایک جگہ میں گئی ووٹ مانگنے وہاں کی خواتین مجھے کہتی ہیں بی بی آپ لیٹ آئی ہیں ہم نے کل ہی کسی کو حلف دے دیا ہے، کل آجاتیں تو کچھ ہوجاتا۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات میں آرمڈ فورسز کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کردیا

وہ کہتی ہیں کہ دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی ہمیں مسائل کا سامنا رہا، ہر روز پیشی پہ بلا لیتے تھے کہ آپ بارہ بجے کے بعد کمپیئن نہیں کرسکتیں، ہمارے ساتھ اتنے لوگ نہیں ہیں ٹائم کم ہے پورا حلقہ کیسے کوور ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں خواتین کو الیکشن لڑنے میں سب سے بڑی رکاوٹ گھر سے اجازت ہوتی ہے اگر گھر سے اجازت اور سپورٹ ہوتو کامیابی ممکن ہوسکتی ہے خواتین کو چاہییے کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں بجائے اسکے کہ مخصوص سیٹوں پر آئیں۔

بہاولپور کے سینئر صحافی و تجزیہ نگار راشد ہاشمی کہتے ہیں کہ یہاں عورتوں کا مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ان کا مردوں کے جلسے سے خطاب کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ الیکشن لڑنے والی خواتین کو اچھا نہیں سمجھا جاتا نہ ہی ان کو سیاسی میدان میں کامیابی ملتی ہے سیاست میں دلچسبی رکھنے والی خواتین کو چاہئیے کہ کسی پارٹی کی طرف سے بھرپور سپورٹ اور ٹکٹ کے ساتھ الیکشن لڑینگی تو کامیابی مل سکتی ہے ورنہ یہاں لوگوں کو ووٹ کے لئے ایک عام عورت کا قائل کرنا بہت مشکل ہے۔

نئی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ جاری ،بابر اعظم کی ترقی

بہاولپور میں خواتین کو الیکشن لڑنے میں درپیش مسائل اور مشکلات اپنی جگہ لیکن شہرنواب کی لاکھوں خواتین کے حقوق کے حصول کے لئے خواتین کو سیاسی میدان میں آگے آنا ہوگا۔


متعلقہ خبریں