سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیدیا

سپریم کورٹ (supreme court)

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل غیر قانونی قرار دیکر کالعدم کر دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ سویلینز کے خلاف مقدمات فوجی نہیں سویلین عدالتوں میں چلیں گے۔

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے کی۔

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پرکالعدم قرار دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو آئین سے متصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جبکہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا ہے۔

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کیلئے حکم امتناع کی درخواست مسترد

عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں  گرفتار 102 افراد جن کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے  ان کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں چلانےکا حکم دیا ہے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ  آخری آرڈرکے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوجائیں پھرکیس چلانے کا طریقہ کار دیکھیں گے۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےدلائل میں کہا کہ آگاہ کروں گا کہ  2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں، عدالت کو یہ بھی بتاؤں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں۔

انتخابات کیس ، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ  ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشتگرد؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ  ملزمان میں ملکی وغیرملکی دونوں ہی شامل تھے، 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشتگردوں کے سہولت کاربھی شامل تھے، ملزمان کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت ٹرائل کیا جائے گا، سوال پوچھا گیا تھا کہ ملزمان پر چارج کیسے فریم ہوگا؟ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمے کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز  پر ہو گا، فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی اور شہادتیں بھی ریکارڈ ہوں گی، آئین کے آرٹیکل10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے  پورے ہوں گے، ہائیکورٹ اور  پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جاسکیں گی۔

پنجاب، کے پی انتخابات از خود نوٹس: پی ڈی ایم کا جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر پر اعتراض

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم اس لیے کی گئی تھی کہ دہشت گرد آرمی ایکٹ کے دائرے میں نہیں تھے، دہشت گردوں کے فوجی ٹرائل کے لیے 21ویں آئینی ترمیم کی گئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ  دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے ترمیم ضروری تھی تو سویلین کے لیے کیوں نہیں؟ کیا اکیسویں آئینی ترمیم کے وقت بھی ملزمان نے فوج یا تنصیبات پر حملہ کیا تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں ممنوعہ علاقوں میں حملے والوں کے فوجی ٹرائل کی شق شامل کی گئی تھی۔

سانحہ 9 مئی ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع ہو گیا

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ  آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ  21 ویں آئینی ترمیم میں قانونی عمل کا تحفظ کیا گیا تھا، آرمی ایکٹ کا اطلاق اسی صورت ہوتا ہے جب جرم فوج سے متعلقہ ہو، آفیشل سیکرٹ ایکٹ توپی ایم ہاؤس اور دفترخارجہ پر حملے پربھی لگ سکتا ہے، آرٹیکل 175 کی بنیاد  پرکورٹ مارشل کالعدم قرار  نہیں دیا جاسکتا۔

عدالت نے فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں واپس کردیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ  فوجی تحویل میں افراد کی درخواستوں کے ساتھ بیان حلفی نہیں ہیں۔ فوجی تحویل میں 9 ملزمان کی درخواستیں واپس لے لی گئیں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد  سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد ازاں سنا دیا گیا۔

 


متعلقہ خبریں