طلباء کے لیے کیرئیر کونسلنگ میں انقلاب، سائیکو میٹرک ٹیسٹنگ متعارف


لاہور کی شانزہ خان نے اعلیٰ تعلیم میں قدم رکھنے والے طلباء کی رہنمائی اور بہترین مواقعوں کی فراہمی کے لیے آئی آن آئی وی وائے کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق شانزہ خان نے بچوں کے رحجانات کا اندازہ لگانے کے سائیکو میٹرک ٹیسٹ کرانے کے لیے آئی آن آئی وی وائے کا آغاز کیا ہے۔

شانزہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی کلچر میں بچوں کو نصابی تعلیم پر توجہ دینا سکھایا جاتا ہے، اس تناظر میں بچے غیر نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں۔

اپنی پسند کی تعلیم اور اسی شعبے میں کیرئیر بنانا ہر سٹوڈنٹ کو میسر نہیں ہوتا۔ تعلیم اور کیرئیر کے حوالے سے مناسب رہنمائی نہ ہونے کے باعث یا تو ذہین کمسن طلبہ کا ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہےیا وہ بہترین مواقع کھو بیٹھتے ہیں۔

تعلیم اورکیرئیر کے حوالے سے شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ اٹھاون فیصد، انڈر گریجوایٹ طلبہ کو مضامین کے انتخاب میں کیرئیر کاؤنسلنگ کا موقع میسر نہیں آتا ۔

ریسرچ کے مطابق گریجوایشن کرنے والے چھیاسٹھ فیصد طلبہ ایسے ہیں  جنہیں مضامین اور کیرئیر کے حوالے سے کاونسلنگ میسر نہیں آ سکی۔

پلیٹ فارم کا مقصد آٹھویں اور نویں جماعت کے کم عمر طلباء کو انکے رجحان کے مطابق مضامین کے انتخاب میں مدد فراہم کرنا ہے۔

شانزہ خان کہتی ہیں کہ وہ بیس سال امرکا میں مقیم رہنے کے بعد پاکستان آئیں تو دیکھا کہ تعلیم کے کلچر کے حوالے سے ملک میں خاطر خواء تبدیلی نہیں آئی تھی۔

اعلی تعلیم کی دہلیز پر کھڑے طلبہ کو بنیاد مشاورت نہیں ملتی جسکے باعث وہ بھیڑ چال میں یا تو ایسے کورسز میں داخلہ لے لیتے ہیں جس میں انکا رجحان نہیں ہوتا یا پھر ایک غلط تجربہ انکے تعلمی سال اور ذہانت کے ضیاع کا سبب بن جاتا ہے۔ انہی مسائل کے حل کے لئے انہوں نے آئی آن آئی وی وائے لانچ کی۔

انہوں نے بتایا کہ آئی آن آئی وی وائے کے پلیٹ فارم سے وہ بچوں کو دیکھتے ہیں کہ بنیادی طور پر انکا رجحان کس جانب ہے، وہ اپنی زندگی کے ویژن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

شانزہ خان کا کہنا تھا کہ ذیادہ تر چودہ پندرہ سال کے بچے ہیں جو اپنے تعلیمی و پیشہ ورانہ مستقبل کے بارے میں واضح نہیں ہوتے۔ چونکہ والدین کو صرف چند شعبوں کا ہی علم ہوتا ہے لہذا وہ والدین کو ڈاکٹرز، انجینئرز یا وکیل بننے کا کہہ دیتے ہیں۔

شانزہ خان کہتی ہیں کہ وہ آئی آن آئی وی وائے سے بچوں کا سائیکو میٹرکس ٹیسٹ کرنے کا کہتے ہیں جس سے بچے کے رجحان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی کلچر میں بچوں کو نصابی تعلیم پر توجہ دینے کا سکھایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بچے غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں سے دور ہو جاتے ہیں۔

شانزہ خان کہتی ہیں کہ امریکا میں گریڈز کی کم سے کم اہمیت ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ اگر طلبہ امریکا میں اپلائی کر رہے ہیں کم سے کم دس سرگرمیاں لسٹ کرنی پڑتی ہیں۔

طلبہ کو بتانا پڑتا ہے کہ انہوں نے ہر سرگرمی، رضاکارانہ کام، انٹرن شپ اور کلب یا سوسائٹی کا کام کتنے گھنٹے کیا، کتنے عرصے اور کس گریڈ میں کیا۔

امریکا کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپکو کم از کم پانچ ایوارڈز لسٹ کرنے ہیں۔

پاکستانی سکول میں ہمارے بچوں کو ایوارڈز مل جاتے ہیں۔ یا تو وہ ڈینز لسٹ میں آ جاتے ہیں، آنر بورڈ پر آ جاتے ہیں۔ لیکن جب ہارورڈ، ییل، سٹین فرڈ یا ایم آئی ٹی میں داخلہ درکار ہو تو جامعات کی جانب سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کو یہ ایوارڈ کس لیول پر ملا ہے؟

کیا یہ سکول لیول پر ملا ہے، انٹر سکول، پراونشل، نیشنل یا انٹرنیشنل لیول پر ملا ہے۔ جب ہمارے بچے نینشنل یا انٹرنیشنل لیول پر پہنچتے ہیں تو بچوں کو ان مواقعوں کا پتہ نہیں ہوتا۔

شانزہ خان کے مطابق اس حوالے سے پاکستانی والدین بہت تاخیر سے جاگتے ہیں جسکا نقصان بچوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں اس جہت پر نویں کلاس سے کام شروع ہو جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب بچہ انکے پاس آتا ہے۔ اگر بچے کی اکیڈمکس بہت اچھے ہیں اور غیر نصابی سرگرمیاں کمزور ہیں تو انہیں امریکا کے بجائے ہانگ کانگ یس سنگا پور کے تعلیمی موقع تجویز کئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں گریڈز کے ساتھ پروفائل کی بھی بہت ضرورت ہے۔ یہی صورتحال برطانیہ اور کینیڈا میں ہے لیکن وہاں سکالر شپس کے مواقع بہت کم ہیں۔

سائیکو میٹرکس ٹیسٹ طلبہ کے لئے بالکل مفت ہے۔ اسکا مقصد اس بات کو جاننا ہے کہ بچے کی شخصیت کی کیا طاقت ہے اور کیا کمزوریاں ہیں۔ ٹیسٹ سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کیا بچہ تخلیقی ہے، کیا وہ رسک ٹیکر ہے، کیا وہ آنٹرپرنیور ہے۔

یہ ٹیسٹ چونکہ دنیا بھر کے آل گوردھمز استعمال کرتے ہیں تو دنیا بھر کا ڈیٹا لیکر بتاتے ہیں اچھے طلبہ کی یہ خاص خاص چیزیں ہیں۔

ان کے مطابق طلبہ کی شخصیت کے ان اعداد و شمار لیکر کیرئیر تجویز کئے جاتے ہیں۔ ان نتائج کو والدین اور بچوں کے ساتھ ڈسکس کر کے پوچھا جاتا ہے کہ انہیں کون سے کیرئیرز اپیل کر رہے ہیں۔ جب والدین اور بچے راضی ہو جاتے ہیں کہ انہیں انیکی مرضی کے شعبے کے حوالے سے تعلیی مواقع، انٹرن شپ یا فیلو شپ تجویز کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انکا ادارہ فیلو شپس اور انٹرن شپ کے ساتھ ساتھ بچوں کو سال بھر مواقع فراہم کرتا ہے۔

آن لائن کورسز، ایکسٹرنل پروگرامز کے مواقع دئیے جاتے ہیں۔ کچھ مواقع مفت ہوتے ہیں، کچھ کے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ والدین کی مالی حالت دیکھ کر بھی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

شانزہ خان نے کہا کہ وہ بچوں کو کہتی ہیں کہ وہ ملک اور بیرون ملک تعلیمی مواقعوں کی تلاش کے دوران طلبہ کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ وقت کا ضیاع نہ کریں۔

بہترین طریقہ یہ ہے کہ جا کر شیڈوشپس کریں، انٹرن شپس کریں۔ اگر بچون کو اس حوالے سے ادراک نہیں ہوتا کہ کونسے ادارے یہ آپشنز دے رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ارد گرد فیملی فرینڈز کے لوگوں سے بات کی جائے تاکہ قرب و جوار سے مواقع میسر آ سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ آجکل طلبہ میں سب سے ذیادہ اور بڑھتا ہوا رجحان کمپیوٹر سائنس کی جانب ہے۔ کمپیوٹر سائنس تمام جنوبی ایشیا میں سب سے مقبول میجر ہے اور چونکہ اتنے ذیادہ بچے اس میں اپلائی کر رہے ہیں تو کمپیوٹر سائنس میں مقابلہ بھی بڑھ گیا ہے۔

شانزہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اعلی تعلیم اور مستقبل کے لئے بچوں کی پیشگی تیاری کے لئے ضروری ہے کہ پرائمری اور مڈل سکولز کی سطح پر خصوصی نصاب تشکیل دے کر ماہرین تفویض کئے جائیں جو اوائل عمر میں ہی بچوں کی کیرئیر کونسلنگ پر فوکس کریں۔

شانزہ خان نے یہ بھی کہا کہ انکے تیار کردہ بچے بیرون ملک کے مختلف اداروں اور جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انکی خواہش ہے کہ ان بچوں کو شناخت ملے، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔


متعلقہ خبریں