زہریلا امریکی پودا، فصلوں، جانوروں اور انسانوں کیلئے بڑا خطرہ


رپورٹر: انورزیب
خیبر پختونخوا کے کھیتوں، باغات اور چراہ گاہوں میں حملہ آور پودا پارتھینیم ویڈ، جسے مقامی زبان میں گاجر بوٹی کہا جاتا ہے؟ خاموشی سے پھیل چکا ہے۔

سبزیوں، فصلوں اور باغات کی پیداوار پر اثر انداز ہونے والا یہ پودا چند سالوں سے مقامی کسانوں کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ کسان پارتھینیم ویڈ کو ختم کرنے کے لیے جدید اور روایتی طریقے استعمال کرر ہے ہیں لیکن ختم نہیں ہو رہا۔

پشاور کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے کسان ممریز خان بھی گزشتہ چار سال سے اس پودے سے نبرد آزما ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”صرف یہ جانتا ہوں کہ سفید پھولوں والا یہ پودا ہر قسم سبزی اور فصل کے لیے تباہ کن ہے۔“ ہم نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پودا اتنا پھیل رہا ہے کہ زہریلی سپرے سے بھی ختم نہیں ہورہا۔ ”ٹماٹر کی فصل پر اس سال چار مرتبہ زہریلی سپرے کیا ہے لیکن فائدہ نہیں ہوا، یہ ہر طرف پھیل گیا ہے اور اگلے سال اس سے زیادہ ہوگا۔“

زرعی یونیورسٹی پشاور اور دیگر اداروں کی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق پارتھینیم ویڈ یا گاجر بوٹی پاکستان میں پہلی مرتبہ 1980میں گجرات میں رپورٹ ہوا تھا، اور گزشتہ چار دہائیوں میں ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا ہے، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پارتھینیم ویڈ ہوا، پانی اور ٹرانسپورٹ کے ذریعے پھیل سکتا ہے اور اب اس نے خیبر پختونخوا کے پہاڑوں، چراہ گاہوں، باغات اور میدانوں کارخ کرلیا ہے۔

وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی ڈاکٹر جہان بخت نے ہم نیوز کو بتایا کہ پارتھینیم ویڈ گاجر بوٹی سمیت کئی ناموں سے جانا جاتا ہے، یہ پودا انسان، جانوروں اور حشرات کے لیے یکساں نقصان دہ ہے۔”جہاں یہ پودا پہنچ جاتا ہے وہاں پیداوار میں 20 سے 25 فیصد کمی کرتا ہے، اگر جانور اس کو کھاتے ہیں تو دودھ کی کوالٹی خراب ہوتی ہے۔“ ڈاکٹر جہان بخت کے مطابق سپرے سے یہ پودا ختم کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ یہ اب ہرجگہ آپ کو مل سکتا ہے اور پورے ملک میں سپرے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پودا بہت زیادہ ریزیلینٹ ہے سپرے سے بچ جائیگا تو اگلے سال اور بھی پھیل جائیگا۔ ان کے مطابق پارتھینیم کو ختم کرنا ہے تو ایک عوامی مہم چلانا ہوگی اور اس کو تخم پکنے سے پہلے جڑ سے اکھاڑنا ہو گا، پارتھینیم کو ختم کرنے کا یہ واحد حل ہے۔

سنٹر آف ایکسیلنس ان مالیکیولر بیالوجی پنجاب یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پارتھینیم کا ایک پودا 25 ہزار تخم پیدا کرتا ہے اور یہ مقامی جڑی بوٹیوں اور بائیو ڈائیورسٹی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

پارتھینیم جنوبی اور سنٹرل امریکہ سے دنیا میں پھیل گیا ہے۔ ہنداوی ویب سائٹ پر شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق دنیا کے 20 ممالک ایسے ہیں جہاں یہ پودا پھیل گیا ہے۔

برصغیر میں اس پودے کا تخم 1910 سے پہلے درآمد کی گئی گندم میں داخل ہوا۔ 2001 سے 2007 تک پارتھینیم نے آسٹریلیا میں ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین پر پھیل گیا تھا، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پارتھینیم نے زراعت اور بائیوڈائیورسٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔


متعلقہ خبریں