شہید ارشد شریف کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی


اسلام آباد: کینیا میں پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونے والے صحافی ارشد شریف کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کر دی گئی۔

ارشد شریف کی نماز جنازہ میں صحافیوں اور عوام کی بڑی تعداد شریک تھی۔ نماز جنازہ فیصل مسجد کے احاطہ میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی نماز جنازہ میں شریک تھے۔

سینئر صحافی ارشد شریف کے جسد خاکی کو آج صبح اسپتال سے گھر منتقل کیا گیا جہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے جنہوں نے پھول نچھاور کرکے ان کا استقبال کیا، جبکہ ایک بجے پاکستان کے ترانے اور قومی پرچم کے ساتھ ان کو رخصت کیا۔

ارشد شریف کے قتل کی کینیا میں تفتیش جاری ہے، تحقیقات کے لیے واقعہ میں ملوث کینین پولیس افسران نے اپنے ہتھیار واپس کر دیئے ہیں، تحقیقات کرنے والی ٹیم یہ جاننا چاہتی ہے کہ واقعے میں کینیا پولیس کے ایک افسر کو گولی لگنے کے واقعے میں کوئی دوسرا شوٹر ملوث تھا یا نہیں۔  فائرنگ کے نتیجے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد ان کے ساتھیوں نے اس گاڑی پر گولی چلائی، جس میں ارشد شریف سوار تھے، تحقیقاتی ٹیم ایموڈمپ کیونیا شوٹنگ رینج کے مالکان سے بھی پوچھ گچھ کرے گی، جہاں ارشد شریف نے اتوار کو زیادہ تر وقت گزارا تھا

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا  کہ ارشد شریف وہاں کیا کر رہے تھے مگر یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ ان کا ڈرائیور خرم احمد، شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کا بھائی ہے، دس سالوں سے کینیا میں گاڑیوں کی درآمد کے کاروبار سے  وابستہ رانا عزیز  کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کا ویزا بھی ایکسپائر ہوچکا تھا لیکن انہوں نے اس میں مزید تین مہینوں کے لیے توسیع کروائی تھی۔

ارشد شریف قتل کیس میں تحقیقاتی ٹیم تشیل دے دی گئی ہے، ٹیم 3 ارکان پر مشتمل ہے۔ جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلی ایجنسیز کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے گی، جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم حتمی رپورٹ وزارت داخلہ کو پیش کرے گی۔

تحقیقاتی ٹیم ارشد شریف کی دبئی اور پھر کینیا روانگی کی وجوہات اور محرکات کا بھی جائزہ لے گی، تحقیقاتی ٹیم، کینیا پولیس اور دیگر ذرائع سے شواہد کی روشنی میں آزادانہ رپورٹ مرتب کرے گی۔

ارشد شریف کو  نیروبی سے سو کلو میٹر دور واقع مغربی کیجاڈو کے دوردراز علاقے میں قتل کیا گیا ہے، یہ بہت ہی کم آبادی والا علاقہ ہے، دوردراز ہونے کے باوجود نہ صرف دن بلکہ رات کے اوقات میں بھی اس علاقے کو سفر کے لیے نسبتاً محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ ارشد شریف اتوار کی شب فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے جس کے بعد مقامی پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

سینیر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف اے آر وائی نیوز، دنیا نیوز، آج ٹی وی اور ڈان نیوز سے منسلک رہے۔

بیرون ملک جانے سے پہلے ارشد شریف کچھ مہینے پہلے اے آر وائی سے منسلک تھے، ارشد شریف کو حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا


متعلقہ خبریں