کلچر بن گیا، فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہوا، سپریم کورٹ

Supreme Court

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کلچر بن گیا ہے فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا لیکن اگر خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے، تاحایات نااہلی کے لیے اٹارنی جنرل نے سیاسی و اخلاقی دلائل دیئے تھے اور منحرف اراکین کی تاحایات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی آئین میں شمولیت کی نیت بھی دیکھنی ہو گی، آرٹیکل 62 اور 63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں جبکہ ہر حکومت اور آمر آرٹیکل 58 ،62, 63 اور 96 میں ترمیم کرتے رہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا اور دیکھنا ہے کہ منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈر پیدا ہو یا نہیں۔ سب سے پہلے طے کرنا ہے منحرف ہونا درست ہے یا غلط اور اگر منحرف ہونا غلط قرار پایا تو دیکھیں گے اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی سے انحراف صرف ضمیر جاگنے پر نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ کئی مغربی ممالک میں پارٹی سے انحراف رکوانے کی کوشش ہے تاہم پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی یہ اصل سوال ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 162ون ایف میں عدالتی ڈکلیئریشن شامل کیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ممبر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے؟ اور یہ کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے۔ امریکی جج کے مطابق عدالتی فیصلہ نہ ماننے والی حکومت کو لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارا ملک اس وقت انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے اور کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حالات اتنے خراب نہیں ہیں عمومی بات نہ کریں۔

عدالت نے کہا کہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا لیکن اگر خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔ عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے اور جو بات لیڈر کرتا ہے عوام اس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں وزیر اعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے اور منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے اور فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی؟

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے اور جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد نااہلی ہے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا مطلب منحرف رکن کو پھانسی دینا بھی نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس مسترد کر سکتا ہے ؟ منحرف ہونا اتنا بڑا جرم ہے تو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے اور جو بات لیڈر کرتا ہے عوام اسکے پیچھے چل پڑتی ہے،

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سترہویں ترمیم میں وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ کو بے پناہ اختیارات دیے گئے اور وزیراعظم کے خلاف تو سپریم کورٹ بھی کارروائی نہیں کرسکتی تھی۔ الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں وزیر اعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے اور منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے جبکہ فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی؟

جسٹس جمال خان نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے اور جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں