برطانوی سفارتخانہ افغانوں کی اہم دستاویزات پھینک گیا: طالبان نے ضبط کر لیں

برطانوی سفارتخانہ افغانوں کی اہم دستاویزات پھینک گیا: طالبان نے ضبط کر لیں

کابل: برطانوی دفتر خارجہ کے عملے نے کابل میں قائم اپنے سفارتخانے میں ایسے افغان شہریوں کی اہم و حساس نوعیت کی دستاویزات اور سی وی چھوڑ دی ہیں جن کی وجہ سے وہ باآسانی شناخت کیے جا سکتے ہیں۔

افغان شہریوں کی اہم شناختی دستاویزات سفارتخانے کے فرش پہ بکھری ہوئی برطانوی اخبار کے نامہ نگار نہ صرف دیکھی ہیں بلکہ انہیں طالبان نے ضبط بھی کرلیا ہے۔

ہوشیار: امریکی فوج کی حساس بائیو میٹرک ڈیوائسز طالبان کے ہاتھ لگ گئیں

مؤقر برطانوی اخبار دی ٹائمز کے مطابق جب گزشتہ روز اخباری نامہ نگار نے برطانوی سفارتخانے کا دورہ کیا تو اس نے دیکھا احاطے میں جو کاغذات بکھرے ہوئے ہیں ان میں ایسے متعدد افغان شہریوں کی سی وی بھی شامل ہیں جنہوں نے ملازمت کے حصول کی خاطر برطانوی سفارتخانے کو درخواستیں دی تھیں۔ نامہ نگار کو اسی دوران وہاں کا گشت کرنے والے طالبان بھی ملے جنہوں نے سفارتخانے کی دیوار پہ آویزاں ایک بڑی تصویر بھی اٹھا رکھی تھی۔

افغان شہریوں سے متعلق سفارتخانے کے احاطے میں بکھرے ہوئے کاغذات میں تمام ضروری انفارمیشن موجود ہیں بلکہ فون نمبرز بھی درج ہیں۔ درج فون نمبروں پہ جب نامہ نگار نے کال ملائی تو باقاعدہ متعلقہ افراد سے بات چیت بھی ہوئی۔

اس ضمن میں اخبار نے سوال کیا ہے کہ وہ افغان شہری تو خوش قسمت تصور کیے جا سکتے ہیں جنہوں مغربی سفارتکاروں یا فوجیوں کے ہمراہ کام کیا اور بیرون ملک چلے گئے لیکن جو رہ گئے ہیں اور ان کے متعلق تمام اہم دستاویزات بھی بکھری پڑی ہیں وہ تو انتقامی کارروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کابل پر قبضے کے بعد جب سفارتی عملہ اپنا انخلا کررہا تھا تو ضروری تھا کہ وہ تمام اہم ڈیٹا کو ضائع کردیتا تاکہ کسی کی خفیہ معلومات غلط ہاتھوں میں جانے کا امکان باقی نہ رہتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مقامی افغان عملے، ان کے اہل خانہ اور ملازمتوں کے خواہش مند افراد کو نقصان پہنچنے کے شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

اس ضمن میں برطانوی اخبار نے بتایا ہے کہ دستاویزات اس وقت سامنے آئیں جب سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب نے اپنے افغان ہم منصب سے بات کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

اس ملاقات کا بنیادی مقصد کابل کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں جانے کے بعد برطانیہ کے لیے کام کرنے والے افغان ترجمانوں کے محفوظ انخلا کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ نہیں، آرمی چیف

اخبار کے مطابق اس لاپرواہی اور بے دھیانی سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی سفارتخانے کا عملہ صرف اپنے ملازمین کے محفوظ انخلا پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا اور اسے ہونے والی افراتفری میں اپنے افغان ملازمین کی قطعی کوئی پرواہ نہیں تھی۔

لاوارث ملنے والی دستاویزات میں درج بعض نمبروں پہ کال کرنے سے معلوم ہوا کہ کچھ افراد ضرور برطانیہ منتقل ہوئے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں اوران کے متعلق ساری تفصیلات ابھی طالبان کی جانب سے ضبط کیے گئے کاغذات میں درج ہیں۔

اس سلسلے میں اخبار نے بتایا برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز کہا گیا ہے کہ ہمارے سفارتی عملے نے کابل سے نکلنے سے قبل تمام حساس مواد کو ہر ممکن طریقے سے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

برطانوی اخبار کے مطابق لاوارث حالت میں ملنے والی اہم دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے پیدا شدہ صورتحال پر سیکریٹری دفاع بین والیس نے مؤقر امریکی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز سے بات چیت میں کہا کہ جو کچھ کیا گیا ہے وہ بہت غلط ہے اور اس کی مکمل تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں تو وزیراعظم بھی دریافت کریں گے کہ دستاویزات کو زمین پرکیسے چھوڑا گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں تحقیقات کرکے حقائق تک لازمی جائیں گے۔

برطانوی سیکریٹری دفاع کے مطابق سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب کو پیدا شدہ صورتحال کے سنجیدہ جوابات دینا ہوں گے کیونکہ حساس نوعیت کے مواد کی تباہی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی جو نہیں کی گئی۔

کابل ایئر پورٹ: طالبان کی سیکیورٹی بارے درخواست پر فیصلہ ابھی نہیں کیا، ترک صدر

اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات پوچھے جار ہے ہیں جن میں سے یہ بھی ہے کہ کیا آپریشن میں کوئی سمجھوتہ تو نہیں کیا گیا تھا؟ لیکن اب فارن افیئرز سلیکٹ کمیٹی کی جانب سے انکوائری کی تیاری پورے طریقے سے شروع کردی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں