ویڈ لاک پالیسی سے متعلق ڈیپوٹیشن اساتذہ کا معاملہ: ڈی جی ایف ڈی ای طلب

پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں 20 فیصد کمی، عدالت نے فیصلہ محوظ کرلیا

اسلام آباد:چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اﷲ نے ڈائریکٹر جنرل وفاقی نظامت تعلیمات (ایف ڈی ای) سے ویڈ لاک پالیسی کے تحت اسلام آباد کے مختلف اسکولوں میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے مردو خواتین اساتذہ کو بے دخل (Repatriate) کرنے سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کیسے چند اساتذہ کو ضم (Absorb) کیا گیا جبکہ باقی ان کو اپنے متعلقہ محکمہ (Parent department) بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ 

دوران سماعت جج نے ریمارکس دیئے کہ ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے مرد و خواتین اساتذہ 15، 20 سال تک اسلام آباد میں ملازمت کرتے رہے لیکن کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ عدالت کو بتایا جائے کہ سنگل بینچ کے فیصلے میں کہاں ویڈلاک پالیسی کا قانون متاثر ہوا ہے؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف ڈی ای نے اساتذہ کو ان کے آبائی علاقوں میں بھیجنے کا حکم جاری کرتے ہوئے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ۔عدالت نے سٹیٹس کو کو برقرار رکھتے ہوئے مزید سماعت 17 فروری تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت تک وفاقی نظامت تعلیمات نہ صرف ڈیپوٹیشن سے متعلق عدالتی فیصلے کو باریکی سے پڑھیں بلکہ ڈائریکٹر جنرل وفاقی نظامت تعلیمات اکرام علی ایک حلف نامہ عدالت میں جمع کروائیں اور عدالت کو آگاہ کریں کہ 2006 ءسے 2021 ءتک کتنے لوگ ضم کئے گئے؟ اور ان کا کیا معیار رکھا گیا تھا؟

پیر کو چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے متاثرہ اساتذہ کی درخواستوں کی سماعت کی تو انہیں وکلاء کی طرف سے بتایا گیا کہ وفاقی نظامت تعلیمات نے ویڈلاک پالیسی کے قانون کو یکسر نظر انداز کیا جس سے کئی خاندان متاثر ہوئے جبکہ آئین خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

درخواست گزار اساتذہ کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 25/3 اس بات کا محافظ ہے کہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا لیکن وفاقی نظامت تعلیمات نے ڈیپوٹیشن سے متعلق عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی اور  250 مرد و خواتین اساتذہ کو اسلام آباد سے بیدخل کرنے کے احکامات صادر کر دیئے جو کہ آئین اور قانون کے منافی ہے۔

وکلاء  نے عدالت کو بتایا کہ خواتین کا ملازمت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن وفاقی نظامت تعلیمات نے اس کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔

یڈووکیٹ علی نواز کھرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ویڈلاک پالیسی کے تحت کسی بھی خاتون یا مرد کو اس کے اہلخانہ سے دور نہیں کیا جا سکتا اور عدالتی فیصلے میں ویڈلاک پالیسی کو چھیڑا ہی نہیں گیا۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے ڈائریکٹر لاء ایف ڈی ای اعظم گھکھڑ سے استفسار کیا کہ مجھے وہ پیرا گراف پڑھ کر سنائیں جس میں عدالت نے ویڈلاک پالیسی سے انحراف کرکے اساتذہ کو واپس بھیجنے کا لکھا ہو۔ ڈائریکٹر لاء ایف ڈی ای اس پر خاموش ہو گئے تو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کے حقوق کو آپ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتاہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ ویڈلاک پالیسی کا جب قانون موجود ہے تو پھر طویل عرصے سے اسلام آباد کے اسکولوں میں ملازمت کرنے والے اساتذہ کو واپس بھیجنے کا حکم  کیوں دیا گیا؟

مزید پڑھین: تعلیمی اداروں میں عربی زبان کی لازمی تعلیم کا بل منظور

جج نے مزید استفسار کیا کہ اگر ان اساتذہ  کو رولز کے تحت نہیں رکھا گیا اور ان کا  قیام اسلام آباد میں غیر قانونی تھا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور ڈائریکٹوریٹ نے ان افسران کے خلاف کیا ایکشن لیا ہے جنہوں نے ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تھی؟

دوران سماعت علی نواز کھرل نے معزز عدالت کو بتایا کہ ایک طرف 250 اساتذہ کو اسلام آباد دربدر کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تو دوسری طرف ایک اشتہار کے ذریعے اسلام آباد میں 400 مزید اساتذہ ڈیپوٹیشن پر تعینات کرنے کا کہا گیا ہے۔

علی نواز کھرل ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو وہ اشتہار پیش کیا تو فاضل چیف جسٹس نے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے پیش ہونے والے ڈائریکٹر لاء پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کون سا اصول ہے کہ 15 سال تک لوگوں سے کام لے کر ان سے کہا جائے آپ واپس جائیں اور نئے لوگ آ جائیں گے؟

جج نے ریمارکس دیئے کہ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن ازسرنو ایک اعلٰی سطحی کمیٹی تشکیل دے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ طویل عرصہ تک اسلام آباد میں ملازمت کرنے والے اساتذہ کو کیونکر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے؟

عدالت نے حکم دیا کہ یہ کمیٹی ڈپٹی سیکرٹری کی سطح سے اوپر کی سطح پر بنائی جائے اور عدالت کو تمام امور سے آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے 17 فروری کو دوبارہ سماعت کی تاریخ مقرر کردی ہے۔


متعلقہ خبریں