کمپنیزکرپشن کیس: چیف جسٹس کا تمام ریکارڈ نیب کے حوالے کرنے کا حکم


لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے17 کمپنیز کا ریکارڈ تین روز میں نیب کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں 56 کمپنیز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو( ڈی جی نیب) عدالت میں پیش ہوئے۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے 56 کمپنیز میں سے 17 کا ریکارڈ تاحال فراہم نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ تمام تر ریکارڈ نیب کے حوالے کیا جائے۔

انہوں نے56 کمپنیز کے سربراہان کو اضافی تنخواہیں واپس کرنے کا حکم بھی دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام سربراہان، سول سرونٹ رولز کے تحت تنخواہ وصول کریں گے۔

چیف جسٹس نے ایک ہفتے کے اندر حکم نامے پرعمل درآمد کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

سرکاری افسران اور ججزکی سرکاری گاڑیوں سے متعلق کیس

چیف جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسروں، ججز اور ملازمین کی لگژری گاڑیوں کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر میں نے اپنے ادارے کو صاف نہ کیا تو دوسروں کے متعلق  کیسے اقدامات اٹھا سکتا ہوں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سرکاری افسران اور ججز کو گاڑیاں دینے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟

چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ متعلقہ بورڈ گاڑیاں دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔

چیف سیکرٹری پنجاب کے مطابق اس وقت مختلف اداروں کے پاس لگژری گاڑیاں موجود ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے متعلقہ بورڈ کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ کمپنیوں میں کام کرنیوالے بیورو کریٹس وصول کی گئی اضافی رقم واپس کرنے کے لیے تیار رہیں۔

انہوں نے کہا کہ رقم واپسی کے لیے بیوروکریٹس کو زیادہ وقت نہیں دیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے سربراہ نے دریافت کیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھی کوئی گاڑی دی جا رہی ہے؟

چیف سیکرٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ انہیں دو کروڑ 40 لاکھ روپے کی گاڑی دی جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس گاڑی کو بلٹ پروف بھی کروایا جا رہا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قانون کے تحت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مرسیڈیز گاڑی دی جا سکتی ہے؟

چیف سیکرٹری نےبتایا کہ قانونی طور پر وہ 1800 سی سی گاڑی تو لے سکتے ہیں مگر بلٹ پروف گاڑی پر ان کا استحقاق نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے پاکستان بھر میں سرکاری افسران کے پاس موجود لینڈ کروزرز کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

صحافی قتل کیس:

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سمبڑیال کے صحافی ذیشان بٹ کے قتل سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل پنجاب نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ابھی تک قتل میں ملوث مرکزی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا۔

جسٹس ثاقب نثارنے آئی جی پنجاب کو15 روز میں مرکزی ملزم گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

غیرقانونی شادی ہال کیس

لاہور میں قائم غیرقانونی شادی ہال کیس کی سماعت کے دوران لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی( ایل ڈی اے) نے پانچ سال کی مہلت مانگ لی۔

ایل ڈی اے کے وکیل نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ گنجان آباد علاقوں میں قائم شادی ہالز کو پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی جائے۔

وکیل ایل ڈی اے نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آئندہ تعمیر ہونے والے شادی ہالز کم ازکم چار کنال رقبے پر تعمیر ہوں گے جن میں پارکنگ کی سہولت لازمی موجود ہو گی۔

سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو ایل ڈی اے رپورٹ کی روشنی میں قانون سازی کی ہدایت کرتے ہوئے ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا۔

مینٹل اسپتال کی حالت زار کیس:

ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے اسپتال کو پاگل خانہ یا مینٹل اسپتال کہنے سے روک دیا۔

عدالتی معاون عائشہ حامد اور ظفر کلانوری نے اسپتال کی حالت سے متعلق رپورٹ پیش کی جس پر سپریم کورٹ کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اسپتال میں 100 بیڈز پر مشتمل یونٹ فعال نہ ہونے پر عدالت عظمیٰ نےاظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ  جلد ہی اس معاملے پر میڈیکل بورڈ بنایا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے لاہورہائی کورٹ کو حکم دیا کہ100 بیڈز سے متعلق یونٹ کے حکم امتناعی پر 10 روز میں فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نےاسپتال میں زیر علاج بھارتی خاتون اجمیرہ سے متعلق رپورٹ طلب  کر لی۔

اتائیوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس

چیف جسٹس آف پاکستان  کے حکم پر جھنگ کے الفلاح کلینک میں خاتون کا آپریشن کرنے والے اتائیوں کو احاطہ عدالت سے گرفتارکرلیا گیا۔

گرفتار ہونے والوں میں محمد ایوب اورحرشامل ہیں جبکہ مرکزی ملزم ڈاکٹر رفیق مفرور ہیں۔

چیف جسٹس نے ایس پی جھنگ محمد خرم کو حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ڈاکٹر رفیق کوگرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے اتائیوں کے بنیان پہن کر خاتون کا آپریشن کرنے کی ویڈیو پر از خود نوٹس لیا تھا۔


متعلقہ خبریں