موٹروے جیسے واقعات پر حکومتوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے، عدالت


لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے موٹروے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی پی او کے ایسے بیانات پر کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے تھی۔

لاہور ہائی کورٹ میں موٹروے واقعہ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت کے طلب کرنے پر سی سی پی او لاہور ہائیکورٹ پہنچے۔

عدالت میں موٹروے زیادتی کیس پر جاری نوٹیفکیشن پیش کیا گیا جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت بنایا گیا ہے یہ کمیٹی کمیٹی نہیں کھیلا جا سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ میں سی سی پی او کو جاری کردہ شوکاز نوٹس پیش کر دیا گیا۔

سی سی پی او لاہور نے مؤقف اختیار کیا کہ 3 بجکر 5 منٹ پر رپورٹ ہوئی تھی اور ہم 3 بجکر 25 منٹ پر پہنچ گئے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خاتون نے پہلی کال کس کو کی تھی جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ خاتون نے پہلی کال 130 پر کی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ خاتون کو کیا کہا گیا تھا تو سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ خاتون کو کہا گیا آپ 15 پر کال کریں۔ موٹروے حوالے کرنے کے بعد فورس تعینات نہیں کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ موٹروے کب حوالے کی گئی تھی جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ موٹروے دو ماہ قبل حوالے کی گئی تھی۔

سی سی پی او لاہور نے مؤقف اختیار کیا کہ 2018 میں بریفنگ کے وقت فورس تعیناتی سے متعلق کہا گیا تھا تاہم اب تک فورس تعینات نہیں کی جا سکی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں تمام آئی جیز کو اس کیس میں بلوا رہا ہوں۔

سی سی پی او نے بتایا کہ رنگ روڈ ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے لیکن اداروں کی آپس میں لڑائی کے باعث مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بچی نے 130 پر کال کی انہوں نے ایف ڈبلیو پر کانفرنس کال ملا دی۔ 130 نے اپنا کام بہترین کیا اور کانفرنس کال ملا دی۔ خاتون کو چاہیے تھا کہ وہ 15 پر کال کر دیتیں۔ اب اس بیان پر مجھ پر پھر الزام لگا دیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بچی کو کیوں کال کرنی چاہیے تھی 130 والوں نے کیوں نہیں کی ؟ جب بچی نے 130 پر کال کی تو پھر ذمہ داری تو ان کی بنتی ہے۔ ڈولفن فورس والے کب پہنچے اور انہوں نے کہا مناظر دیکھے ؟

سی سی پی او نے بتایا کہ ڈولفن فورس 20 منٹ میں پہنچ گئی تھی۔ ڈولفن فورس نے دو ہوائی فائر کیے تو خاتون نے آواز دی۔ ایک بچی، دو بچے اور خاتون وہاں پر موجود تھے۔ فیملی کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا اور کچھ دیر بعد خاتون نے میڈیکل کرانے کی حامی بھری، ہم نے وہاں ڈی این اے کے سوئپ لیے جبکہ فٹ پروفیشنل کو بھی فوری منگوایا گیا۔ جو حلیہ بچی نے بتایا اس کے مطابق ملحقہ 3 گاؤں میں سرچنگ کی۔

سی سی پی او عمر شیخ نے مزید کہا کہ ہم نے 53 افراد کا ڈی این اے کروایا اور ڈی این اے کے لیے وہاں کیمپ بھی لگوایا جبکہ جیو فینسنگ والے بھی کام کر رہے تھے، جو ڈی این اے خاتون سے ملا وہ ہمارے ریکارڈ سے میچ کر گیا۔ مرکزی ملزم عابد کا ڈی این اے ہمارے پاس پہلے سے موجود تھا۔ اس دوران اس کے شناختی کارڈ نمبر سے سمیں چیک کیں جبکہ وقار شاہ کے عابد ملہی کے ساتھ سابقہ روابط تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں کامیابی مل چکی ہے جبکہ اس کیس پر میں نے جو بیان دیا اس پر معذرت چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو آئی جی پنجاب نے شوکاز دے دیا ہے ؟ ایسے واقعات پر حکومتوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔

سی سی پی او نے کہا کہ میں لاہور کو تین ماہ میں ٹھیک کروں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے میں نے اس سسٹم کو کیسے ٹھیک کرنا ہے۔ تین ماہ بعد مجھے بلا لیجیئے گا میں رپورٹ پیش کروں گا۔

سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کمیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر بنائی گئی ہے اور یہ کمیٹی تین روز کے اندر واقعہ کے محرکات پر اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہو گی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں اس واقعہ کی رپورٹ کیا ہے ؟ یہ رپورٹس ٹرائل کا حصہ ہی نہیں بن پائیں۔ مختارا مائی کیس میں بھی کمیٹیاں بنی تھیں کیا ہوا اس کا ؟

درخواست کے وکیل نے کہا کہ سانحہ ساہیوال پر بھی کمیٹی بنی لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ کمیٹی میں ٹیکنیکل لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے تھا، ایسے افراد کو شامل کیا جاتا جو بتاتے مستقبل میں کیسے ان واقعات سے بچا جا سکے۔

لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

عدالت نے حکم دیا کہ دیہات میں ویران سڑکوں پر رات کو کم از کم دو گھنٹے گشت کریں اور گشت کرنے والی ٹیم کو بھی چیک کیا جائے۔ واقعہ کی مکمل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔ یہ سڑک حکومت کی ملکیت ہے اور کوئی مظلوم بن جائے تو حکومت ذمہ دار ہے۔

عدالت نے واقعے اور روڈ میپ سے متعلق رپورٹ 16 ستمبر تک پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارس دیے کہ رات کو اکیلے سفر کرنے سے پولیس اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے اور یہ اداروں کی چپقلش کا معاملہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سی سی پی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بچی اس اعتماد سے نکلی کہ وہ موٹروے پر جا رہی ہے لیکن اب وہ ساری زندگی ایک ٹرامے میں گزارے گی۔

سی سی پی او نے مؤقف دیا کہ آپ درست فرما رہے ہیں۔ میں نے ڈی جی خان میں ڈی ایس پی کے علاوہ 7 ایس ایچ اوز کو بھی ہتھکڑیاں لگوائیں، جو قصور وار ہے اس کو سزا ملنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر کام اداروں نے نہیں کچھ سوسائٹی کی ذمہ داری بھی ہے کیونکہ اب آپ گیارویں صدی یا قبائلی علاقے میں نہیں بیٹھے۔ یہاں چوری ڈکیتی کے پیچھے جانے کو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا جبکہ لوگ شہادت دینے بھی جاتے نہیں اور ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔ عدالتوں پر بوجھ اس لیے ہے کہ سسٹم ڈیلیور نہیں کر رہا۔

اس سے قبل سماعت کے آغاز پر لاہور ہائی کورٹ نے واقعے سے متعلق کمیٹی کا نوٹیفکیشن بھی طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتا ہے؟

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ انکوائری ٹربیونلز آرڈیننس کے تحت حکومت چاہے تو کسی بھی معاملے پر کمیشن بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف خبر فیس بک پر لگانے کے لیے پٹیشن دائر نہ کریں بلکہ قانون بھی پڑھ لیا کریں اور کسی کو خراب کرنے کے لیے ایسی پٹیشن دائر نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے زیادتی کیس کا مرکزی ملزم تاحال مفرور

چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی پی او کے ایسے بیانات پر کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے تھی اور اگر کابینہ معافی مانگتی تو قوم کی بچیوں کو حوصلہ ہوتا۔ لگتا ہے سی سی پی او لاہور وزرا کا افسر ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اتنا بڑا واقعہ ہوا لیکن حکومت کمیٹی کمیٹی کھیل رہی ہے اور وزرا کے مشیران موقع پر جا کر تصاویر بنوا رہے ہیں۔ جس طرح کی تفتیش ہو رہی ہے اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنی ڈرامہ بازی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیر قانون کس حیثیت سے کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں ؟ کیا وزیر قانون کو تفتیش کا تجربہ ہے۔

چیف جسٹس نے تفتیش او سی سی پی او کے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیسی تفتیش کی جا رہی ہے کہ محکمہ کا سربراہ مظلوم کو غلط کہنے پر تل جائے۔


متعلقہ خبریں