عورت مارچ میں نفرت انگیز نعروں، پوسٹرز پر پابندی

عورت مارچ میں نفرت انگیز نعروں، پوسٹر پر پابندی

فائل فوٹو


لاہور: عورت فاؤنڈیشن کے وکیل ثاقب جیلانی نےعدالت کو بتایا کہ ہم نے مارچ کے لیے گائیڈ لائن مقرر کر دی ہیں۔ ہم نے پوسٹر، اشتعال انگیز بیانات اور نفرت انگیز نعروں پر پابندی لگا دی ہے اور ہم اپنے رہنما اصولوں سے باہر نہیں جائیں گے۔

ثاقب جیلانی نے مؤقف اپنایا کہ درخواست گزارعورت مارچ کی مخالفت بھی نہیں کر رہے اور متفرق درخواست میں عورت مارچ کو ریاست مخالف سرگرمیاں بھی کہہ رہے ہیں۔

ہائی کورٹ میں عورت مارچ کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔  درخواست گزار اظہرصدیق ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست میں اسے اپنی سماجی اقدار کے خلاف سرگرمی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: عورت مارچ: سوشل میڈیا پر بھی غیرذمہ دارانہ بیان نہ ہوں، چیف جسٹس

عورت مارچ آرگنائزر کی وکیل حنا جیلانی نے مؤقف اپنا کہ عورت مارچ پر پابندی کی استدعا آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔

لاہورہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ عورت مارچ کیخلاف دائر درخواست سننے کیلئے بنائی گئی کمیٹی قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔

عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ مارچ کی اجازت کی صورت میں مکمل سیکیورٹی فراہم کریں اور اس کی نگرانی بھی کی جائے۔

ہائی کورٹ نے عورت مارچ کے لیے پولیس کو مارچ انتظامیہ سے مل کر پلان مرتب کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

وکیل درخواستگزار نے مؤقف اپنایا کہ اب سیکیورٹی ادارے متحرک ہو چکے ہیں اور سول سوسائٹی کو بلا کر سنا ہے۔

درخواستگزار کا کہنا تھا کہ اب عورت مارچ کی اجازت دینا یا نہ دینا لوکل گورنمنٹ اور ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔

یہ بھی پڑھیں : عورت مارچ: منتظمین کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست مسترد

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آصف چیمہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ مارچ کی اجازت دینے سے اس کمیٹی نے پولیس کو این او سی سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وکیل درخواستگزار کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 5۔6۔15 ۔17۔19 آزادی اظہار رائے کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہاں بچوں اور خواتین کی آزادی کا معاملہ نہیں بلکہ مارچ کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ مارچ کریں مگر قانون ہاتھ میں نہ لیں اور اس کے لیے مکمل سیکیورٹی ہونی چاہے۔ مارچ میں قابل نفرت نعرے یا ایسی باتیں نہ کی جائیں جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں کہ سیکیورٹی اور دہشت گردی کے حوالے سے عدالت ڈی آئی جی کو ٹاسک دے چکی ہے۔

ڈی آئی جی لاہور رائے بابر سعید نے عدالت کو بتایا کہ مارچ والے این او سی کے لیے اپلائی کریں ہم بیٹھ کر ضابطہ اخلاق طے کر دیں گے۔

علاوہ ازیں درخواستگزار نے چھ خواتین کو کیس میں فریق بنانے کی اجازت کے لیے متفرق درخواست دی۔ عدالت نے اس متفرق درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔


متعلقہ خبریں