کراچی: صوبائی حکومت نے سندھ پولیس فنڈز کے استعمال پر تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئےوزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اینٹی کرپشن حکام کو وزیر اعلیٰ ہاؤس طلب کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیس ہیڈ آفس کی تزین و آرائش کے حوالے سے بھی تحقیقات کروائی جائیں گی۔ پولیس کو ملنے والے پیٹرول کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
اس سے قبل صوبائی مشیرقانون سندھ مرتضیٰ وہاب نے بھی آئی جی سندھ ڈاکٹرکلیم امام سے فنڈز کے استعمال کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
خط کے مندرجات میں شامل تھا کہ آئی جی آفس کی تزئین وآرائش پرمیڈیا سوالات اٹھا رہا ہے، 25 ہزار روپے سے زائد خرچ کرنے پر محکہ داخلہ سے لازمی اجازت لینا ہوتی ہے۔
آئی جی سندھ سے وضاحت طلب کی گئی کہ آپ نے آفس پر کتنا خرچہ کیا اور کس سے منظوری لی؟ مرتضیٰ وہاب نے کراچی کے علاقے ملیر میں تعیناتیوں پر بھی اعتراض اٹھایا تھا۔
خیال رہے کہ سندھ پولیس پر کنٹرول کیلئے صوبائی حکومت اور آئی جی کے درمیان کافی عرصے سے سرد جنگ جاری ہے۔
سندھ حکومت نے پولیس اختیارات کے فوری حصول کے لیے مشرف دور کے پولیس آرڈر کو بحال کرنے کی منظوری دی تھی۔ مجوزہ پولیس آرڈر 2002 کے تحت پولیس افسران کی کارکردگی اور کارروائیوں کو حکومت کا تشکیل کردہ پبلک سیفٹی کمیشن مانیٹر کرے گا۔ تقرر وتبادلے بھی حکومت کرے گی۔
آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے سیکرٹری داخلہ کے نام لکھے خط میں کہا تھا کہ پولیس کے انتظامی اور آپریشنل اختیارات آئی جی کو حاصل ہیں۔
صوبائی کابینہ غلام قادرتھیبو کو انسپکٹر جنرل پولیس سندھ مقرر کرنے کی منظوری بھی دی چکی ہے تاہم سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ آئی جی کی تعیناتی وفاق کے ساتھ مشاورت کے بعد کی جائے۔
سندھ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں آئی جی کو ہٹانے کی درخواست کی گئی تھی۔ سندھ حکومت کلیم امان کی جگہ نئے آئی جی کیلئے جو نام اسلام آباد بھجوائے ان میں غلام قادر تھیبو، ڈاکٹر کامران فضل اور مشتاق مہر شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر کلیم امام کو ستمبر 2018 میں صوبہ سندھ کا انسپکٹر جنرل تعینات کیا گیا تھا اور قانون میں آئی جی سندھ کے عہدے کی مدت 3 سال ہے۔