اسلام آباد: بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کے معاملے پر اسلام آباد نے سخت ردعمل دیا ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ سفارتکاروں کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں پاکستان کے سفارتکاروں کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر پاکستانی ہائی کمشنر کو مشاورت کے لیے واپس بلایا ہے۔ ہائی کمیشن حکام نے بھارتی وزارت خارجہ کو ہراساں کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا لیکن اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان اپنے سفارتکاروں کی حفاظت کیلئے ہر حد تک جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھارتی سفارتکاروں کیساتھ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور نا ہی بھارتی ہائی کمیشن نے ہمیں آگاہ کیا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے یہ ردعمل جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں بنتی ہے۔ اس میں آرمی چیف کے کردار کا آئی ایس پی آر (پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ) سے پوچھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیاء میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہے اور بھارت کے ساتھ بھی ہمارا ہتھیاروں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بھارت اسلحے کی دوڑ کے چکر میں علاقائی امن کے لیے خطرات پیدا کررہا ہے۔
ڈاکٹر فیصل نے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی فورسز نے کشمیری رہنماوں کو نظر بند کر رکھا ہے۔ ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ انسانی حقوق کونسل میں اٹھایا ہے۔ بھارت جان بوجھ کر اقوام متحدہ کی ٹیم کو مقبوضہ کشمیر میں جانے نہیں دے رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ بھی بھارتی خلاف ورزیوں پر افسوس کا اظہار کرچکا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سے ریکارڈ مرتب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی امن لایا جاسکتا ہے اور پاکستان مفاہمتی عمل میں کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان میں دونوں ممالک نے تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ سیاسی مشاورت زیرغور ہے۔ روسی فیڈریشن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔
علی جہانگیر صدیقی کے امریکا میں بطور سفیر تعیناتی کے سوال پر ترجمان دفتر خارجہ نے بات کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے۔