پی ٹی آئی نے ووٹ فروخت کرنے والے ‘پہچان’ لئے


اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے تقریبا 20 اراکین سمبلی نے سینٹ الیکشن میں اپنے ووٹ فروخت کئےہیں۔ یہ انکشاف وزیراعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے متعلق ابتدائی تحقیق کے دوران سامنے آیا ہے۔

مقامی انگریزی اخبار نے بنی گالہ اور وزیر اعلی ہائوس کے ذمہ دار ذرائع سے تصدیق کے بعد رپورٹ دی ہے کہ تحقیقات کے احکامات عمران خان نے دیے تھے۔

یہ تحقیق اس حیرت انگیز نتیجے کے بعد کی گئی جس میں محض سات ارکان رکھنے والی پیپلزپارٹی نے دو سینیٹرز منتخب کرا لئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سنیٹ انتخابات کے دوران پیش آنے والی صورتحال پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی کے پی کو تحقیقات کے احکامات دیئے تھے۔

پرویز خٹک ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ آج چیئرمین کو پیش کریں گےجس میں بہتی گنکا میں ہاتھ دھونے والے بعض اہم رہنمائوں کے نام بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ خواتین ارکان نے زیادہ تعداد میں وفاداریاں بدلی ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں ایک دوسرے پر سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کررہی ہیں۔

پی ٹی آئی، کے پی سے پی پی پی کے دو سینیٹرز منتخب ہونے پر جو سوال اٹھا رہی ہے وہی سوال پیپلزپارٹی کے رہنما تحریک انصاف سے پنجاب میں چودھری سرور کی کامیابی پر پوچھ رہے ہیں۔

پی پی پی کے ذمہ دار ذرائع اس ضمن میں دعوی کرتے ہیں کہ وزیراعلی کے پی نے خواتین کی مخصوص نشست پرتعاون کے لئے رابطہ کیا تھا۔ پی ٹی آئی ایسے کسی بھی رابطے سے انکاری ہے۔

پی ٹی آئی سیکرٹری اطلاعات فواد چودھری نے پی پی پی کی جانب سے کئے جانے والے دعوے کو ناقابل یقین قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام اور سازش کا حصہ ہے۔

پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے عمران خان کی جانب سے عائد الزامات پرکہا کہ وہ چودھری سرور کو دیکھیں جنھوں نے کامیابی حاصل کرنے کے لئے غیر اخلاقی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے تسلیم کیا کہ کے پی میں اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے ہم نے سیاسی جماعتوں سے رابطے کرکے ان کی حمایت حاصل کی جس کی وجہ سے سات نشستوں کے باوجود ہمارے دو سینیٹرز منتخب ہوئے۔

چودھری سرور کی کامیابی کےحوالے سے فرحت اللہ بابر نے سوال کیا کہ ان کی کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟ سینیٹر منتخب کرانے کے لئے ان کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں تھی۔

مقامی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق پی پی پی اور پی ٹی آئی دونوں چیئرمین سینٹ کی نشست کے لئے ہونے والے انتخاب میں اپنے امیدواروں کے لئے حمایت حاصل کرنے کی خاطر بھرپور طریقے سے متحرک ہو چکی ہیں۔

اس ضمن میں پی پی پی کے قیوم سومرو اور فیصل کریم کنڈی پر مشتمل دو رکنی وفد خصوصی طیارے میں پشاور سے کوئٹہ پہنچا۔ جہاں انہوں نے وزیراعلی کے علاوہ دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی۔

پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین نے نومنتخب سینیٹر انوارالحق کاکڑ کو فون کرکے انہیں مبارکباد دی۔

بلوچستان سے نومنتخب سینیٹرز نے تاحال کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کے امکان کو رد کیا ہے لیکن دونوں جماعتیں اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

نومنتخب سینیٹرانوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ بات چیت کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہوئے ہیں لیکن ہم کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کررہے ہیں۔

ایک اور نو منتخب آزاد سینیٹر صادق سنجرانی کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کو چیئرمین منتخب کیا جائے تاکہ ہمارے لوگوں کا احساس محرومی بھی دور ہو ۔

بلوچستان کے حوالے سے ن لیگ کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہاں سے اس کا ایک بھی سینیٹر منتخب نہیں ہو سکا ہے۔

ن لیگ نہ صرف صوبہ بلوچستان کی سابق حکمران جماعت ہے بلکہ اسمبلی میں بھی اس کے اراکین کی تعداد 21 ہے۔

سندھ میں بدقسمتی کا یہ معاملہ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہوا۔ پی ایس پی سربراہ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی لالچ کی وجہ سے پارٹی کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے اپنے ووٹ فروخت کئے ہیں۔

پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے والے آٹھ اراکین اسمبلی کے متعلق انھوں نے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ انھوں نے ملنے والی ہر پیشکش کو ٹھکرایا ہے۔


متعلقہ خبریں