لازوال ملی نغموں کے خالق اور باکمال نغمہ نگار کلیم عثمانی

لازوال ملی نغموں کے خالق اور باکمال نغمہ نگار کلیم عثمانی

رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں

شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی

پھر برسنے لگیں آنکھیں مری بادل کی طرح

بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات

میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

قتیل شفائی، ساحر لدھیانوی، جانثار اختر، مجروح سلطان پوری، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، شکیل بدایونی اور یونس ہمدم دنیائے اردو ادب میں نہ صرف اپنی گیت نگاری کی وجہ سے معروف ہیں بلکہ انہوں نے جو غزلیں کہیں وہ بھی شہرہ آفاق ٹھہریں۔ ایسے ہی افراد پر مشتمل قبیل سے تعلق رکھنے والوں میں کلیم عثمانی کا نام بھی شامل ہے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے کلیم عثمانی کا والدین نے نام احتشام الٰہی رکھا تھا اور وہ 28 فروری 1932 کے دن سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔

احتشام الٰہی کو بچپن سے شاعری کا شوق تھا اور شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد فضل الٰہی بیکل بھی اپنے زمانے میں اچھے شاعر کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے لیکن ان کی شاعری کو چار چاند اس وقت لگے جب انہوں نے باقاعدگی سے پاکستان ہجرت کے بعد ممتاز شاعر احسان دانش کی شاگردگی اختیار کی۔

ابتدا میں دشت صحافت کی مختصر سیاحی کی، پھر مشاعروں میں داد سمیٹی اور اس کے بعد فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا۔

یہ 1955 تھا جب انہوں نے ’انتخاب‘ کے گیت تخلیق کیے۔ فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی مگر پردہ اسکرین پہ فلم ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن کلیم عثمانی کو شناخت مل گئی۔

1957ء میں جب انہوں نے ’بڑا آدمی‘ کے گیت تخلیق کیے تو مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آواز میں گایا گیا دوگانا ’’کاہے جلانا دل کو چھوڑو جی غم کے خیال کو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد ’راز‘ کے گیتوں نے شہرت سمیٹی۔

زبیدہ خانم کی مخملی گائیکی نے ان کے گیت ’’میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا‘‘ کو نہ صرف امر کردیا بلکہ اس بات کو سند عطا کردی کہ کلیم عثمانی مسلمہ نغمہ نگار ہیں۔

مجیب عالم نے جب 1966 میں ان کے تخلیق کردہ گیت کو اپنی مدھر آواز سے سجایا تو فلم بین عش عش کراٹھے۔ جلوہ نامی فلم میں پکچرائز کیے گئے اس گیت کے بول تھے کہ’’ کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں۔

اسی زمانے میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہم دونوں‘ کے لیے جب رونا لیلیٰ نے گیت گایا کہ ’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ تو ان کی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد انہوں نے عصمت، جوش انتقام ،ایک مسافر ایک حسینہ، نازنین اور عندلیب کے گیت تخلیق کیے۔

روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی، خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرا دو، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں اور تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی جیسے امر گیتوں میں ان کی شاعری بام عروج پہ دکھائی دی۔

بلاشبہ! یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ درج بالا کوئی ایک نغمہ بھی اگر ان کے کریڈٹ پہ ہوتا تو دنیائے شاعری میں انہیں امر کرنے کے لیے کافی تھا چہ جائیکہ ان کے بے مثال نغمات کی گنتی مشکل ہے۔

۔۔۔ لیکن انہوں نے صرف غزل اور گیت ہی کو اپنی شاعری کا مرکز و محور نہیں بنایا بلکہ ملی نغمات کے ذریعے بھی بے پناہ داد وصول کی۔ معروف ملی نغمہ یہ وطن تمہارا ہے – تم ہو پاسباں اس کے اور اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ان کے فنی عظمت کا بین ثبوت ہیں۔

کلیم عثمانی کی غزلوں میں جہاں رومانویت اپنی پوری رعنائی کے ساتھ ملتی ہے تو وہیں عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ دنیائے ادب میں انہیں ایک صاف گو اور اصول پسند شخص سمجھا جاتا تھا۔

سارہ شگفتہ: اپنے حصے کی دھوپ سے محبوب کے کپڑے سکھانے والی شاعرہ

کلیم عثمانی اپنی نجی زندگی میں جس قدر سچائی سے محبت کرتے تھے اسی قدر ٹوٹ کر منافقت سے نفرت بھی کرتے تھے۔

کلیم عثمانی کے تخلیق کردہ معروف گیتوں میں آج اس شوخ کی تصویر سجالی میں نے، وہ نقاب رخ الٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں – کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں، لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں – دیپ جلیں سُر کے ساگر میں، میرے دل کی محفل سجا دینے والے، پیار کر کے ہم بہت پچھتائے، شکستہ دل ہوں مجھے زندگی سے پیار نہیں، چاند نکلا ہے ترے حسن کی تصویر لیے، تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں گے، جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے، مرا خیال ہو تم میری زندگی تم ہو، قصہ غم سنائے جا اے زندگی رلائے جا اور اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں شامل ہیں۔

نصرت کی موسیقی: روح کی صدا

ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ کلیم عثمانی نے فلمی گیت نگاری میں کبھی موسیقار کو رعایت دیتے ہوئے شاعری کی آبرو مجروح نہ کی اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ فلمی گیت کی ادبی حیثیت مسلمہ رہے۔ یہ ہنر کم شعرا کی شاعری میں ملتا ہے۔

ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت

پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت

اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں

ہم نے کر کے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت

منہ چھپا کر آستیں میں دیر تک روتے رہے

رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت

قطرہ قطرہ اشک غم آنکھوں سے آخر بہہ گئے

ہم نے پلکوں کی انہیں زنجیر پہنائی بہت

اپنا سایہ بھی جدا لگتا ہے اپنی ذات سے

ہم نے اس سے دل لگانے کی سزا پائی بہت

اب تو سیل درد تھم جائے سکوں دل کو ملے

زخم دل میں آ چکی ہے اب تو گہرائی بہت

شام کے سایوں کی صورت پھیلتے جاتے ہیں ہم

لگ رہی تنگ ہم کو گھر کی انگنائی بہت

آئنہ بن کے وہ صورت سامنے جب آ گئی

عکس اپنا دیکھ کر مجھ کو ہنسی آئی بہت

وہ سحر تاریکیوں میں آج بھی روپوش ہے

جس کے غم میں کھو چکی آنکھوں کی بینائی بہت

میں تو جھونکا تھا اسیر دام کیا ہوتا کلیمؔ

اس نے زلفوں کی مجھے زنجیر پہنائی بہت

کلیم عثمانی 28 اگست 2000 کو لاہور میں خالق حقیقی سے جاملے اور اسی شہر میں آسودہ خاک ہوئے۔


متعلقہ خبریں