محبت اور غم جاناں کا استعارہ: احمد فراز

محبت اور غم جاناں کا استعارہ: احمد فراز

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

درج بالا عالمی شہرت یافتہ غزل کے خالق احمد فراز کی آج گیارہویں برسی پوری عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے۔ جنوری 1931 میں کوہاٹ میں پیدا ہونے والے ممتاز شاعر احمد فراز کے کل 14 مجموعہ کلام منظر عام پرآئے جس میں تنہا تنہا، درد آشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بودلک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔

اردو، فارسی اورانگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرر منسلک ہوئے۔

ان کی شاعری کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ غم جاناں اور محبت ان کے خیالات کا مرکز و محور تھے۔ شاید! یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں اردو پڑھنے، بولنے اور لکھنے والے موجود ہیں وہاں کے نوجوانوں میں وہ ہمیشہ مقبول رہے ہیں حالانکہ ان کی شاعری میں معاشرتی و سماجی ناہمواریوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

ساز و آواز سے منسلک اساتذہ اس بات پر متفق ہیں کہ جو نغمگی، بے ساختگی اور وارفتگی احمد فراز کی شاعری میں ملتی ہے وہ بہت کم شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں سر، تال اور لے ایک ہوجائیں وہاں سے احمد فراز کی شاعری شروع ہوتی ہے۔

ترقی پسند نظریات کے حامل احمد فراز کو ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور ہلال پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا گیا لیکن جنرل ضیاالحق کے دور میں وہ پابند سلاسل رہے۔ انہوں نے تقریباً چھ سال قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور پھر جلاوطنی کا غم بھی سہا۔

احمد فراز پاکستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے وہ شاعر ہیں جن کی غزلوں و نظموں کے تراجم انگریزی، روسی، جرمنی، ہندی، فرانسیسی اورسویڈش سمیت دیگر غیرملکی زبانوں میں کیے گئے۔

احمد فراز کی شعوری، فکری اور مسحورکن غزلوں و نظموں کے علاوہ ان کی فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ احمد فراز نے کبھی بھی باقاعدہ فلمی شاعری نہیں کی لیکن ان کی غزلیں و گیت زبان زد عام ہوئے مگر انہیں گنگنانے والوں کی اکثریت بھی اس بات سے لاعلم رہی کہ وہ احمد فراز کی تخلیق ہیں۔

احمد فراز کی فلمی شاعری میں رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں اور یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے کو بے پناہ شہرت ملی۔

احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے اور آئی ایٹ اسلام آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

اردو شاعری میں انمٹ نقوش ثبت کرنے والے احمد فراز کے تین بیٹے سعدی فراز، شبلی فراز اور سرمد فراز ان کا نام زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے چند مقبول عام اشعار درج ذیل ہیں۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

اور فراز ؔچاہئیں کتنی محبتیں تجھے

ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنیں
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنیں

یہی سنا ہے بس اتنا قصو ر تھا تیرا
کہ تونے قصر کے کچھ تلخ بھید جانے تھے
تری نظر نے وہ خلوت کدوں کے داغ گنے
جو خواجگی نے ز ر و سیم میں چھپانے تھے
تجھے علم نہیں تھا کہ اس خطا کی سزا
ہزاروں طوق و سلاسل تھے تازیا نے تھے
کبھی چنی گئی دیوار میں انار کلی
کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی

ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا


متعلقہ خبریں