مقبوضہ کشمیر، جہاں قبرستان آباد اور شہر ویران ہیں

بھارت کا یوم آزادی، دنیا بھر میں کشمیریوں کا یوم سیاہ

وادی چنار کی صورت حال مسلسل کرفیو کے باعث انسانی المیے کی جانب تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ وادی میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے، مواصلاتی رابطے تاحال معطل ہیں جس کی وجہ سے مظلوم اور بے بس کشمیری اپنی حالت زار دنیا کو بتانے سے بھی قاصر ہیں۔

آج 23ویں روز بھی پوری مقبوضہ وادی بھارتی فوج کے نرغے اور کرفیو کی زد میں ہے، مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام 23 دن سے خوراک اور ادویات سے محروم ہیں جبکہ گھروں میں رکھا راشن ختم ہو چکا ہے۔ حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ دکانیں نہ کھلنے سے راشن اور خوراک ناپید ہوتی جا رہی ہے۔

دنیا بھر سے مقبوضہ وادی سے کرفیو ہٹانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن مودی سرکار اپنی روایتی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مریضوں کے لیے ادویات تک ختم ہو چکی ہیں مگر بازار کھلتے ہیں نہ بے بس کشمیریوں کی ضرورتیں پوری ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہے۔

مودی سرکار کسی بھی حال میں ظلم کی راہ ترک کرنے پر تیار نہیں ہے۔ کشمیر میں بھارتی درندگی کے باعث پیدا ہونے والی اس صورتحال نے شہر سے زیادہ اسپتال اور قبرستان آباد کر دیے ہیں۔

اس تکلیف دہ صورتحال میں وادی چنار کے باسیوں کی زندگی کے ساتھ ساتھ موت بھی مشکل ہو گئی ہے۔ بھارتی مظالم سے زندگی کی بازی ہار جانے والے کشمیریوں کے لواحقین کو ان کی موت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے بھی در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔

ان ناگفتہ بہ حالات میں ریاست کی کٹھ پتلی حکومت کی ڈھٹائی برقرار ہے، کٹھ پتلی گورنر کا کہنا ہے کہ اگر فون اور اسکول بند ہیں تو کون سی قیامت آ گئی ہے۔

برطانوی ادارے انڈیپنڈنٹ نے ایک کشمیری خاندان کی اندوہناک کہانی شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی شہری پینتیس سالہ بانو اپنے دو بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر بھارتی شیلنگ سے موت کی وادی میں چلی گئی ہے مگر اس کا شوہر رفیق اس کی موت کے سرٹیفیکیٹ کے لیے اسپتال میں رکنے پر مجبور ہے۔

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ حراست میں لیے گیے کشمیری سیاسی رہنماؤں کو آزاد کیا جائے اور کشمیریوں کو  بولنے کے حق دیا جائے۔


متعلقہ خبریں