اسلام آباد: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنسز کے معاملے پر ایوان بالا (سینیٹ) نے مذمتی قرارداد منظورکرلی ۔ قرارداد مسلم لیگ ن کے سینیٹر راجہ ظفرالحق نے پیش کی تھی۔
اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کثرت رائے سے منظورہوئی،حکومت کی جانب سے قرارداد کی مخالفت کی گئی ۔
سینیٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق نے ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قراردا پیش کرنے کی اجازت مانگی جس پر چیئرمین سینیٹ نے انہیں اجازت دے دی۔
قرارداد میں کہا گیاہےکہ ججز کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے پر ایوان تشویش کا اظہار کرتا ہے، یہ ریفرنس عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے، ایوان عدلیہ کے معزز ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔
راجہ ظفر الحق کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت معزز ججز کے خلاف ریفرنس واپس لے۔
قرارداد میں مزید کہا گیاہےکہ ریفرنس خفیہ انداز میں دائر کیا گیا جس سے متعلق ججز کو علم نہیں تھا، ریفرنس دائر کرنے پرشدید تنقید ہورہی ہے اور بارکونسلز میں تقسیم نظر آئی ہے، شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ریفرنس معزز ججز کے حالیہ فیصلوں سے متعلق ہے، ایوان معزز ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے، حکومت معزز ججز کے خلاف ریفرنس واپس لے۔
سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن ارکان نے شور بھی مچایا ۔اپوزیشن کی طرف سے عدلیہ مخالف حکومت ، نامنظور نامنظور کے نعرے بھی لگائے گئے۔
حکومتی ارکان نے قائمہ کمیٹیاں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ ایوان بالابھی ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی طرح مچھلی بازار بن گیا۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ سینیٹر فیصل جاوید اور بہرہ مند تنگی کے مابین جھڑپ ہوئی۔
سینیٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ترمیمی بل 2019 مسترد کردیا۔ بل اپوزیشن کی مخالفت کے باعث مسترد ہوا۔
بل میں کہا گیاتھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد کو بشمول چیف جسٹس 7سے 10 کی جائے۔
اپوزیشن کی جانب سے بل کی فوری منظوری کی مخالفت کی گئی ۔
سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی اجلاس میں تمام حاضر ممبران نے بل کی حمایت کی تھی۔ یہ بل 4 جون کو ایکسپائیر ہو جائے گا،عوامی مفاد میں بل کو فوری منظور کیا جائے ۔
سینیٹر مصطفے نواز کھوکھر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تین نشستیں خالی ہیں ، جنھیں پر کرنےکیلئے حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ میں نے قائمہ کمیٹی اجلاس میں بل کے موجودہ مسودہ کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر قانون نے میری تجویز کی حمایت کی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کا تعلق صرف اسلام آباد سے ہو،تاہم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کئے گیے بل میں وہ ترمیم شامل نہیں ہے۔
مصطفے نواز کھوکھر نے کہا وزیر قانون نے سمری ایوان صدر بھیجی ہے ، جس کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کو فارغ کیا جا رہا ہے ، حکومت عدلیہ پر حملہ کر چکی ہے ، اپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ایسے میں اپوزیشن حکومت کا ساتھ دے گی؟
انہوں نے کہا کہ حکومت عدلیہ میں من پسند ججز بھرتی کرنا چاہتی ہے، حکومت جسٹس قاضی فائز عیسی اور کے کے آغا جیسے معزز ججز پر حملہ کر چکی ہے ۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مصطفی نواز کی تقریر سے یہ تاثر ملا کہ بل کی مخالفت عوامی مفاد میں نہیں ، بلکہ اپنے کرپشن کیسز کی باعث ہے۔ آج اپوزیشن نے جو یو ٹرن لیے ہیں ، اپنی قیادت کو بچانے کے لیے جو انھوں نے مخالفت کی ہے ، اس پر یہ بے نقاب ہو جائیں گے۔
شبلی فراز نے کہا کہ ایک طرف یہ عدلیہ کو چنے چبانے کی بات کرتے ہیں ، اور آج یہ عدلیہ کی آزادی کے چیمپین بنے ہیں۔ آپ نے اپنی قیادت کو بچانے یہ موقف اپنایا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے:قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر
آج پارلیمنٹ میں جو ہوا وہ جمہوریت نہیں آمرانہ طریقہ تھا، بلاول
سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کمیٹی فیصلہ کرتی ہے ، کمیٹی کے ممبران آج برائے نام اپوزیشن کرنے کے لیے بل کی مخالفت کر رہے ہیں ۔اگر اپوزیشن سے کوئی بات کی گئی تو جو میں کہوں گا تو اس کے لئے تیار رہناہوگا۔
اس پر سینیٹر پرویز رشید نے کہا تم دھمکی دے رہے ہو؟
فیصل جاوید بولے بیچ میں مت بولیں؟ یہ جملے کسیں گے تو وہ بات کرنے پر مجبور ہوں گا جو نہیں کرنا چاہتا۔
فیصل جاوید اور پرویز رشید کے درمیان تلخ کلامی پر ایوان کا ماحول خراب ہوگیا۔
چئیرمین سینیٹ نےاجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔