ماسکو: افغان طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ ’امارات اسلامیہ‘ امن کی خواہش مند ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہے۔
انہوں نے یہ بات روس کے دارالحکومت ماسکو میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ تقریب کا انعقاد روس اور افغانستان کے سفارتی تعلقات کے 100 سال مکمل ہونے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔
افغان طالبان، گیارہ ستمبر 2001 کے بعد سے بھی حکومت کے لیے ’امارات اسلامیہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں حالانکہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان کی افغانستان میں قائم حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ امریکی حملے سے قبل طالبان اپنی حکومت کے لیے یہ اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے۔
افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کے مطابق ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ امارات اسلامیہ قیام امن کی آرزو مند اور خواہش مند ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس راستے میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔ رکاوٹوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ افغانستان پر سے ’غیر ملکی‘ قبضہ ختم کیا جائے۔
طلوع نیوز کے مطابق افغان طالبان وفد کے ایک رکن لطیف خان متقی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ امارات اسلامیہ اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے دوستانہ تعلقات رکھنے کی خواہش مند ہے لیکن وہ اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے گی کہ اس کی سرزمین کو کسی دوسرے کے خلاف استعمال کیا جائے۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تقریب کا انعقاد اس بات کا عکاس ہے کہ افغان روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانی اس بات پر روس کے شکر گزار ہیں کہ اس نے افغان امن بات چیت کے لیے میزبانی کا فریضہ سرانجام دیا۔
انہوں نے روس اور امریکہ سے کہا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہاں استحکام آئے اور حقیقی معنوں میں امن قائم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ متحارب فریقین کی اعلیٰ قیادت بات چیت کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہے۔
سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کو قوی امید ہے کہ روس آزاد اور خودمختارحیثیت سے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ قیام امن میں امریکہ، چین اور جرمنی سمیت دیگر تمام متعلقہ ممالک بھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لیورو نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ مسئلہ افغانستان فوجی کارروائی کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ہمیں صرف اور صرف سفارتکاری اور سیاست پہ انحصار کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس تجویز کے حامی ہیں کہ غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکل جانا چاہیے تاکہ افغانستان میں قیام پذیر مختلف الخیال اور نسل کے افراد آپس میں مل بیٹھ کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے کیسے رہ سکتے ہیں۔
طلوع نیوز کے مطابق ’افغان ہائی پیس کونسل‘ کے سربراہ محمد کریم خلیلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہیے اور یہاں ہونے والی بات چیت و گفتگو سے فائدہ اٹھا کر دوحا میں ہونے والے آئندہ کے مذاکراتی عمل میں اس کا اثر دیکھنا چاہیے تاکہ فریقین پراعتماد اور باعزت طریقے سے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرسکیں۔
جمعیت اسلامی کے سربراہ عطا محمد نور نے اپنے خطاب میں کہا کہ روس کی کوششیں قیام امن کے لیے قابل قدر و قابل تعریف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغان متحد و یکجا ہو جائیں تو انہیں غیر ملکی افواج کی اپنی سرزمین پر کوئی ضرورت نہیں ہے۔
عطا محمد نور نے عیدالفطر کے موقع پر فریقین کی جانب سے سیز فائرکرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ تقریب سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق روس کے دارالحکومت ماسکو میں قیام امن کے حوالے سے افغان طالبان، افغانستان کے سیاستدانوں اوردیگر اہم متعلقہ افراد کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
روس اس سے قبل بھی افغان سیاست دانوں اور طالبان کے درمیان ملاقاتوں اور غیر رسمی مشاورتی اجلاسوں کی میزبانی کرچکا ہے۔
امن کی کوششوں کا اختیار غیروں کو نہیں دینگے،اشرف غنی
ماسکو میں منعقد ہونے والے گزشتہ اجلاسوں پر افغان حکومت اور صدر اشرف غنی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
امریکی حکام اپنے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کی قیادت میں گزشتہ کئی ماہ سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہیں لیکن طالبان کسی بھی طور افغان حکومتی نمائندوں سے گفت و شنید پرآمادہ نہیں ہیں۔
دلچسپ امر ہے کہ افغان طالبان کی حزبِ اختلاف کے قائدین کے ساتھ ملا قاتوں کا سلسلہ ضرور جاری ہے۔ منگل کے دن بھی طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں افـغان صدر اشرف غنی کے سخت مخالفین موجود تھے۔ جن سیاستدانوں سے طالبان کی بات چیت ہوئی ہے ان میں کئی ایسے ہیں جو آئندہ صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر کے مد مقابل بھی ہوں گے۔
افغان صدر اشرف غنی ماضی میں ہونے والی اس قسم کی بات چیت پرکڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کی بات چیت میں طے پانے والے معاہدوں کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق گزشتہ روز ہونے والی بات چیت میں افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے قائم کی جانے والی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیلی بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں ہر روز درجنوں افراد لڑائی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں لہذا اس سلسلے کو روکنے کے لیے اب سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔
عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق صوبہ بلخ کے سابق گورنر اور ’تاجک اقلیت‘ کی نمائندہ جماعت جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ طالبان قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔