نیب نے کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی رپورٹ طلب کرلی

فوٹو: فائل


قومی احتساب بیورو (نیب) نے کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی تفصیلات اور ان کےخلاف ہونے والی کارروائی کی رپورٹ طلب کرلی۔

نیب حکام نے ہفتے کے روز ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان سے ملاقات کی۔ نیب حکام کا کہنا تھا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹ چلانے کے معاملے پر واٹر بورڈ اپنی پوزیشن کلیئر کرے۔

نیب حکام کا کہنا تھا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے تعاون نہ کریں تو اسے رپورٹ کا حصہ بناکر پیش کیا جائے۔

نیب خھام نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو غیر قانونی ہائیڈرنٹ چلانے میں ملوث افراد سے متعلق بھی معلومات اکٹھا کرنےکی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: ملک میں پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے، چیف جسٹس

غیر قانونی ہائیڈرنٹ کے خلاف اقدامات کرکے سات دن میں رپورٹ نیب کو بھیجی جائے گی۔

خیال رہے کہ شہر قائد میں پانی کی کمی کا مسئلہ کئی سالوں سے چلا آرہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ شہر میں جگہ جگہ واقع غیر قانونی ہائیڈرنٹس ہیں۔

ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے پانی کو چوری کرکے فروخت کیا جاتا ہے جبکہ اس عمل میں شہر کی انتظامیہ بھی مبینہ طور پر ملوث ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں ہم نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی دارالخلافہ کراچی اپنی یومیہ ضرورت سے نصف پانی پر زندہ رہنے کو مجبور ہے۔

کراچی کی یومیہ پانی کی ضرورت 110 کروڑ گیلن پانی ہے لیکن فراہم کیے جانے والے پانی کی مقدار 55 کروڑ گیلن سے زیادہ نہیں ہے۔

کراچی کو پانی کینجھر جھیل سے فراہم کیا جاتا ہے، کینجھر جھیل سے پانی دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پہنچایا جاتا ہے جہاں سے اسے شہر بھر میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے مطابق شہرمیں واٹرسپلائی کا بیشتر نظام 40 سال پرانا ہے۔ جگہ جگہ غیر قانونی واٹر ہائیڈرینٹس بنے ہوئے ہیں، اس وجہ سے 55 کروڑ گیلن پانی میں سے بھی 23 کروڑ گیلن ضائع یا چوری کر لیا جاتا ہے۔

20 لاکھ آبادی والے اورنگی ٹاؤن سمیت کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پانی مہینہ مہینہ نہیں آتا۔ شہریوں کو مجبوراً واٹر ٹینکر خریدنا پڑتے ہیں، ہزار گیلن والا ایک ٹینکر چار سے چھ ہزار روپے میں آتا ہے۔

کراچی میں بدانتظامی اور عدم توجہی سے پیداشدہ پانی بحران میں مبتادل کا کردار ادا کرنے والے دس ہزار سے زائد واٹر ٹینکرز روزانہ پانی سپلائی کرتے ہیں لیکن ان کا بھی کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مطابق واٹرسپلائی کا انفرا اسٹرکچر درست ہونے اورغیر قانونی واٹر ہائیڈرینٹس کے خاتمے تک پانی کی مناسب اور یکساں ترسیل ممکن نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں