کراچی: 19 ماہ کے احسن کا قتل، مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج



کراچی: شہر قائد میں 19 ماہ کے بچے کے قتل کا مقدمہ تھانہ سچل میں درج کر لیا گیا ہے۔ مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے معصوم احسن کے قتل کا مقدمہ مقتول کے والد  کاشف راجہ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق درج مقدمہ میں اقدام قتل اور قتل خطا کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ہوا ہے۔

درج ایف آئی آر کے متن میں کاشف راجہ نے کہا ہے کہ وہ صفورہ چورنگی کے قریب سامان خریدنے آیا تھا اور رکشے میں سوار تھا کہ اچانک گولیوں کے چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔

کاشف راجہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ بچہ میری گود میں تھا کہ بیوی نے کہا کہ بچہ زخمی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق کاشف نے اسی دوران دیکھا کہ دو موٹرسائیکلوں پر چار پولیس اہلکار سوار فائرنگ کررہے تھے۔

مقتول بچے احسن کے والد کے مطابق زخمی بچے کو لے کر فوری طور پر قریبی اسپتال پہنچے تو وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ میرا بیٹا جاں بحق ہو چکا ہے۔

کر اچی میں منگل کے دن ہونے والی مبینہ پولیس فائرنگ کے نتیجے میں ایک اور معصوم بچہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق 19 ماہ کا معصوم احسن سینے میں گولی لگنے سے جاں بحق ہوا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مبینہ پولیس مقابلے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سے فوری طور پررپورٹ طلب کرلی ہے۔

انہوں نے اس طرح کے واقعات کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندان سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے بھی واقع کا نوٹس لیا ہے اور اس ضمن میں ڈی آئی جی ایسٹ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

معصوم احسن کے جاں بحق ہونے کے بعد قائم مقام ایس ایس پی ملیر اعظم جمالی نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کی تحقیقات کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ چار پولیس اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے تسلیم کیا کہ حراست میں لیے گئے پولیس اہلکاروں کے پاس چھوٹے ہی ہتھیار تھے۔

قائم مقام ایس ایس پی ملیر اعظم جمالی کے مطابق پولیس اہلکار کس کا تعاقب کررہے تھے؟ اس ضمن میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات و نشریات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ یونیورسٹی روڈ پر پیش آنے والے واقع کی مکمل اور صاف و شفاف تحقیقات کرائی جائیں گی۔

انہوں نے معصوم احسن کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ و رنج کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت سندھ معصوم بچے کے متاثرہ والدین کو انصاف دلائے گی اور احسن کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

افسوسناک امر ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران پے در پے ایسے اندوہناک سانحات وقوع پذیر ہوئے ہیں کہ جس میں معصوم و بے گناہ شہری مبینہ طور پر پولیس مقابلے کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ہر سانحہ کے بعد یہی دعویٰ کیا گیا کہ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی لیکن تاحال یہ صرف دعویٰ ہی ثابت ہوا ہے۔

دستیاب ریکارڈ کے مطابق چھ اپریل 2019 کو قائد آباد کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلے کا نشانہ بن کر 12 سالہ سجاد جاں بحق ہوا تھا۔

مقتول سجاد کے والد عدالت خان نے اپنے معصوم بچے کا جنازہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ عوامی مقامات پر اس طرح کے مقابلوں پر پابندی عائد کی جائے لیکن تاحال یہ مطالبہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا ہے کیونکہ حکومتی و انتظامی سطح پر اس ضمن میں کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

22 فروری کی شب نارتھ کراچی میں میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی ہلاکت کے وقت بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ہوئی تھی۔ ابتدا میں پولیس نے مؤقف اپنایا تھا کہ نمرہ ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنی ہے لیکن جب  ڈی آئی جی سی آئی اے کی سربراہی میں تحقیقات ہوئیں تو واضح ہو گیا کہ نمرہ کو پولیس اہلکاروں کی گولیاں ہی لگی تھیں۔

سال روں کے آغاز پر شہر قائد کے علاقے کورنگی میں میاں بیوی بھی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے تھے۔

گزشتہ برس جنوری میں بھی شارع فیصل پر ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے نے راہ گیر مقصود کی جان لے لی تھی۔


متعلقہ خبریں