لاہور : صوبہ پنجاب میں جیل ریکارڈ کو کمپیوٹرائزد کرنے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ کئی سال گزرنے کے باوجودبھی معاملہ جوں کا توں ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جیلوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا پراجیکٹ منشیات اور جرائم کی روک تھام کے عالمی ادارے (یو این او ڈی سی) کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا۔یو این او ڈی سی نے کیمپ جیل اور سنٹرل جیل میں پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز 2014 میں کیا۔
2016 میں لاہور کی دونوں جیلوں کو پنجاب انفارمیشن مینیجمنٹ سسٹم کے تحت کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا تھا۔ تاہم منصوبے میں پنجاب کی مزید بیس جیلوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا جانا بھی شامل تھا۔
تین سال گزرنے کے باوجود منصوبے کے دوسرے حصے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی حکومت کو ایک بار پھر جیلوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے۔ جیلوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے نئی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
کمیٹی میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت پی آئی ٹی بی کی مدد سے تمام جیلوں کے ریکارڈ کو آپس مِیں منسلک کرے گی۔ 20 جیلوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے 227 ملین کے فنڈز درکار ہونگے۔
دوسری طرف پنجاب پولیس بھی اپنی پرانی ڈگر پر گامزن ہے ۔ تھانوں میں شہریوں کی شکایات سننے کا رواج ختم کردیا گیاہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
تھانوں میں لگے لینڈ لائنز اور سرکاری موبائل فونز جواب دے گئے ہیں۔ متعدد تھانوں میں موجود لینڈ لائنز نمبر بند یا مصروف رہنے لگےہیں۔ شہر کی حدود میں واقع 84 تھانوں میں سے متعدد پر مشکل میں پھنسے عوام کی کال ہی ریسیو ہی نہیں کی جاتی۔
یہ بھی پڑھیے:سندھ اور پنجاب کے مجرموں کا ریکارڈ باہم منسلک کر دیا گیا
لاہور کے 84 میں سے 30 تھانوں کے لینڈ لائین نمبرز مستقل مصروف رہنے لگے ہیں۔ افسران اور ملازمین دن بھر اپنے وٹس ایپ نمبر کے استعمال میں مصروف نظر آتے ہیں ۔شہر کے لوگوں کو شکایات ہیں کہ مختلف تھانوں میں موجود بعض نمبر بند ہیں یا ملازمین فون کو مصروف کر دیتے ہیں۔ متعدد ایس ایچ اوز کے سرکاری نمبرز بند یا پھر گن مینوں کے زیر زیر استعمال ہونے کا انکشاف بھی ہواہے ۔
واضح رہھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی طرف سے اوپن ڈور پالیسی کو افسران کیلیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔