بتایا جائے25 روپے کی دوائی 588 روپے کی کیسے ہوئی؟ سینیٹ کمیٹی

فائل فوٹو


سینیر عتیق شیخ نے کہا دواؤں کی تیاری کے لیے کمپنی کو 51 فیصد منافع دیا جاتا ہے۔ ایک دوا 4,4 سو کمپنیاں بنا رہی ہیں۔ڈریپ کا نام ڈرگ انکریز پرائسز ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا جائے۔25 روپے کی دوائی کو 588 روپے قیمت جاری کر دی گئی۔کہا جا رہا ہے کہ دوائیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عمران خان کے خلاف سازش ہے۔بتایا جائے25 روپے کی دوائی 588 روپے کیسے ہوئی؟

سینیٹر عتیق شیخ نے یہ باتیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیں۔

سیکرٹری صحت نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ہارڈشپ کیسز میں دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے کو دیکھنا ضروری تھا۔جن دواؤں کی قیمتوں میں کئی سالوں سے ریٹ نہیں بڑھے ان پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ ڈالر کے ریٹ بڑھنے سے دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ضروری تھا۔

کمیٹی ارکان نے وزیر صحت اور صدر پی ایم ڈی سی کی عدم شرکت پر اظہار برہمی کیا۔

رکن کمیٹی سینیٹر اشوک کمار نے کہا قائمہ کمیٹی کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔

سینیٹر عتیق شیخ نے کہا وزیر صحت صدر ہاؤس کے چکر لگاتے ہیں لیکن کمیٹی کو اہمیت نہیں دیتے۔

سینیٹر سکندر میندھرو نے کہا اگر صدر مملکت نے بلایا بھی ہے تو سینیٹ کی اہمیت اس سے اوپر ہے۔

پی ایم ڈی سی کے اختیارات کے حوالے سے  چیرمین کمیٹی اور سیکرٹری صحت میں بحث بھی ہوئی ۔

سینیٹر عتیق شیخ نے کہا آرڈیننس کے تحت پی ایم ڈی سی کا کام روزمرہ معاملات دیکھنا ہے۔ پی ایم ڈی سی نے آتے ساتھ بھرتیاں شروع کر دی ہیں۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا ہمارے اہم اداروں میں سی ای او موجود نہیں ہیں۔پولیو پروگرام ،ڈریپ اور این آئی ایچ میں سی ای او موجود نہیں۔

این آئی ایچ میں عملے کی کمی ہے،پولیو پروگرام میں میڈیسن کلیئر کرنے کے لیئے لوگ موجود نہیں ہیں۔ ای پی آئی ویکسین نہیں آرہی۔برائے مہربانی لوگوں کو بھرتی کیا جائے۔

سینیٹر عتیق شیخ نے کہا وزیر صحت دواؤں کی قیمتوں کے معاملے کو سنجیدگی سے  نہیں لے رہے۔چار گھنٹے متعلقہ لوگوں  سے بریفنگ لے کر بھی کمیٹی کو جواب نہیں دینےآئے۔

کمیٹی اراکین نے کہا  وفاقی وزیر صحت دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ پر چھپنے کی کوشش نہ کریں کمیٹی کا سامنا کریں۔

یہ بھی پڑھیں:وفاقی حکومت کا دوا ساز کمپنیوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ

سینیٹر اشوک کمار نے کہا ڈریپ کے جعلی ڈگری والے سی ای او کی وجہ سے ہم اپنے علاقے میں شرمندگی سے نہیں جا سکتے ۔

وزیر صحت کی عدم موجودگی کے باعث کمیٹی اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ تاہم کمیٹی کا اجلاس ختم ہوتے ہی وزیر صحت  پہنچ گئے ۔

ادویات کی قیمتوں میں ازخوداضافہ کرنے والی کمپنیوں کی نشاندہی ہو گی ہے،کیانی

وزیر صحت کی جانب سے اجلاس دوبارہ کرنے کی درخواست بھی کی گئی ۔

کمیٹی اراکین اور چیرمین نے وزیر صحت کی درخواست مسترد کر دی۔
اراکین نے کہا آپ اجلاس کو اہمیت نہیں دیتے۔آپ کو اندازہ نہیں کتنا سنجیدہ معاملہ ہے۔سینیٹر میاں عتیق نے کہا اربوں روپےکا معاملہ ہے وزیر صحت اس پہ توجہ دے رہے ہیں۔

ان کی نظر میں غریب کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں  ہے ۔

عامر کیا نی جواب دیا  آپ غلط سوچ رہے ہیں میری بات بھی سن لیں۔ آپ کی کیمٹی کے علاوہ بھی بہت سارے کام ہیں۔

کل ڈریپ کے اجلاس میں چار گھنٹے دوائیوں کی قیمتوں پرغور کیا گیا۔ڈریپ خودمختار ادارہ ہےسی ای او نئے ہیں ،معاملہ سدھارنے میں وقت لگے گا۔

ادویات کی قیمتوں میں ازخوداضافہ کرنے والی کمپنیوں کی نشاندہی ہو گی ہے۔

عامر کیانی نے کہاپہلی ڈرگ پالیسی جون میں آئی تھی۔ گزشتہ ڈرگ پالیسی کے زمہ دار شاہد حاقان عباسی اور ان کی کابینہ ہے۔
عباسی صاحب  کی کابینہ نے آخری ایام میں ہارڈ شپ کیسسز کی منظوری دی ۔ ہمارے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے وقت آنے پر سامنے لائیں گے۔ سابقہ کابینہ نے چارسو پچاسی سے زائد ہارڈ شپ کیسیز کو منظور کیا۔
ہم نے 9 سے 15 فیصد اضافہ ڈالر کی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا تھا۔ جن لوگوں نے حکومتی نوٹیفیکشن کو نظر انداز کیا ان کی فہرست تیار ہے۔متعتد کمپنیاں سیل کر دی ہیں اور بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔تمام سرکاری اسپتالوں کے سربراہ کو ہدایت جاری کی ہے سرکاری ہسپتالو ں میں ادوایات کی فراہمی یقینی بنائیں  گے۔ انہوں نے کہا جن ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں سرکاری ہسپتال سے وہ مفت مل رہی ہیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس 

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت قومی صحت میں وزیر صحت عامر کیانی نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کے نئے بورڈ کے آنے سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

چیرمین کمیٹی نے کہا پی ایم ڈی سی گزشتہ پانچ سالوں میں صرف لڑائیوں میں پڑی رہی۔ کمیٹی کے ایک رکن نے کہا جموں کشمیر سے آنے والے کشمیریوں کے لئے کوٹہ ہوتا ہے۔ یہ کوٹہ 1971 میں بھٹو صاحب نے ختم کر دیا تھا۔

وزیر صحت نے کہا سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم ختم کر دیا تھا۔ ہم اس معاملے میں سختی سےمیرٹ کو ملحوظ رکھتے ہیں۔

ادویات کی قیمتیں بڑھنے کے معاملے پر ارکان اسمبلی کے استفسار پر وزیر صحت نے کہا 80 فیصد ادویات درآمد کی جاتی ہیں۔ابھی جو ریٹ بڑھے ہیں یہ سابقہ حکومت نے کابینہ میں بڑھائے تھے۔

اب ڈالر بڑھا تو اس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اب ہم نے 150 کمپنیوں نے جان بوجھ کر بڑھائے ہیں۔ ان کی لسٹیں تیار کر لیں ہیں۔۔ ان کمپنیوں کا سامان قبضے میں لیا ہے اور ان کو جرمانے کئے ہیں۔

میں نے چیک کرایا ہے کہ لوگوں کو خریدنا نہ  پڑیں یہ ادویات  گورنمنٹ اسپتالوں  میں موجود ہیں۔ اگلے چھ ماہ میں ہم دوائیاں ایکسپورٹ کر سکیں گے۔ابھی جو قیمتیں بڑھی ہیں یہ کسی ایک دوائیوں کی کمپنی کے لئے نہیں سب کی بڑھی ہیں۔ڈریپ کے پاس 890 کیسیز تھے جن کی پرائسسز نہیں بڑھیں۔  سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ان کو بلا کر ان کے کیسیز کو حل کیا جائے۔

65ہزار لائسنس ایشیو ہوئے ہیں اورکمپنیاں 45 ہزار دوائیاں بنا رہی ہیں۔ ان تمام کمپنیوں میں کمپیٹیشن ہے یہ بھی یہ وجہ ہے دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی۔ہ

رکن کمیٹی شازیہ ثوبیہ نے استفسار کیا  یہ ریسرچ کونسل والے وکسینیشن کیوں نہیں بناتے؟

سیکرٹری صحت نے کہا ریسرچ کونسل کا حال بہت برا ہے۔کیونکہ انہوں نے ریسرچ خود نہیں کرنی ہوتی لوگ اپلائی کرتے ہیں کہ انہوں نے کوئی ریسرچ کرنی ہے تو صرف ان کو پانچ لاکھ روپے ریسرچ کے لئے دیئے جاتے ہیں جو بہت کم ہیں۔ہم پی ایچ آر ای سمیت پانچ صحت کے اداروں کو اکٹھا کرنے لگے ہیں۔نرسنگ کے حوالے سے کوئی کام نہی ہو سکا، نرسنگ یونیورسٹی بنانے لگے ہیں۔

عامر کیانی نے کہا نرسنگ یونیورسٹی کے لئے ہم نے جگہ لے لی ہے، نرسنگ کے تمام سکولوں کو وزٹ کیا ہے۔نرسنگ کی پہلے عزت نہیں تھی اب اس کو بہتر کر ہے ہیں۔۔نرسنگ ہماری پہلی ترجیح ہے۔ہم نرسنگ کے لئے 35 ارب روپے جاری کرنے کا کہیں گے۔پولی کلینک میں الڑاساونڈ اور ایکو کے لئے لیڈی ڈاکٹر آج فراہم کر دیں گے۔پولی کلینک کے پلاٹ کا مسلہ حل ہو گیا ہے۔

رکن اسمبلی نے کہا شوکت علی نے کہا ٹرانسپلانٹ کرانے والے لوگ رل رہے ہیں۔ صوبے اپنا قانون بنا رہے ہیں وفاق کا اپنا قانون ہیں اس دوران قانون میں بندے مر جاتے ہیں۔

وزارت صحت کے حکام نے کہا وفاق جو کام کر رہا ہے وہ ہی صوبوں کو عمل پیرا ہونا ہو گا۔پہلے ڈونر صرف بلڈ ریلیشن والے دے سکتے تھے لیکن اب ہم قانون میں ڈال رہے ہیں کہ دوست کولیگ وغیرہ بھی ٹرانسپلانٹ کے لئے ڈونر ہو سکتا ہے۔

وزیرصحت نے کمیٹی کو بتایا کہ صحت کارڈ کے ٹینڈر میں تین کمپنیوں نے حصہ لیا۔اسٹیٹ لائف کو ایک ہونے پرصحت کارڈز کا ٹھیکہ دیا۔جو ڈیٹا بینظر انکم سپورٹ سے ملا اسی کی بنیاد پر کارڈ تیار کیے جا رہے ہیں۔

اس سال پولیو کے 6 کیسز سامنے آ چکے ہیں، سیکرٹری صحت

اسٹیٹ لائف حکام نے بتایا کہ اب تک 1 لاکھ 20 ہزار ہیلتھ کارڈ تیار کیے جا چکے ہیں۔

سیکرٹری صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ اس سال پولیو کے 6 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔افغانستان پولیو وائرس کی پاکستان منتقلی کا سبب بن رہا ہے،ملیریا پر جلد قابو پالیا جائیگا۔ٹی بی اور ایڈز پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔

وزیر صحت نے کہا ملک میں ہر سال 5 لاکھ 81 ہزار ٹی بی کے مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔1 لاکھ 65 ہزار مریضوں کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔ہمارے ملک میں بیماری سے متعلق آگاہی کے لیے کوششیں نہیں میں گئیں۔


متعلقہ خبریں