اسرائیل نے فلسطینوں پر نئی جنگ مسلط کردی: غزہ پر فضائی حملے

اسرائیل نے فلسطینوں پر نئی جنگ مسلط کردی: غزہ پر فضائی حملے

غزہ: فلسطینیوں پر اسرائیل نے ایک نئی جنگ مسلط کردی ہے۔ صیہونی ریاست نے جنگ مسلط کرنے کے لیے حماس کا نام استعمال کیا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی افواج نے غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ نے فضائی حملوں میں تیزی اس وقت دکھائی ہے جب امریکہ نے نتن یاہو سے ملاقات میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرلیا ہے۔

گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967 سے قبضہ کررکھا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل اسرائیل کا دارالحکومت منتقلی کے حوالے سے دیرینہ مطالبہ بھی تسلیم کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا بالکل اسی طرح انہوں نے گولان پہاڑیو ں سے متعلق مؤقف میں جو تبدیلی پیدا کی ہے اس پرشدید ردعمل فی الوقت دیکھنے میں آیا ہے۔

امریکی صدر کے داماد اور ان کے مشیر کشنر بہت جلد مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک نئی پالیسی پیش کرنے والے ہیں جس کی حمایت کی خاطر وہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر بھی ہیں۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق کشنر کی تیار کردہ پالیسی خطے میں نہایت ابتری کا بھی سبب بن سکتی ہے کیونکہ اس میں فلسطینیوں کے حوالے سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔

اسرئیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی کے تمام علاقے میں حماس کے اہداف کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

خبررساں ادارے نے اسرائیلی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کی فضائیہ کی جانب سے حماس کے ایک بحری ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی شمال میں تربیتی کیمپ پر بمباری کی ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق حماس نے اسرائیلی حملے سے کئی گھنٹے پہلے ہی غزہ کے مکینوں کو ممکنہ فضائی حملے سے خبردار کرتے ہوئے ان دونوں جگہوں کو خالی کرالیا تھا۔

عینی شاہدین کے حوالے سے خبررساں ادارے نے بتایا ہے کہ شمالی ہدف پر تین میزائل داغے گئے ہیں۔ ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔

مؤقر اسرائیلی اخبار ’ہیرٹز‘ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے یہ حملے اس حملے کے بعد کیے ہیں جو فلسطینی علاقے سے اسرائیل پر راکٹ داغ کر کیے گئے تھے۔

اسرائیلی اخبار کے مطابق غزہ کے علاقے سے فائر کیا  جانے والا راکٹ علی الصبح تل ابیب کے شمال میں واقع ایک گھر میں گرا تھا جس کے نتیجے میں سات افراد زخمی ہوگئے اور وہاں آگ بھی لگی۔

اسرائیلی سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے مطابق زخمی ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی افواج نے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ غزہ پٹی سے داغا جانے والا راکٹ پیر کی صبح مقامی وقت کے مطابق 3:20 پر ایک گھر پر گرا۔

اسرائیلی فوج نے جاری کردہ پیغام کے ساتھ ایک وڈیو بھی منسلک کی تھی جس میں امدادی ٹیموں کے رضاکار متاثرہ گھر میں اپنی کارروائیوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔

اسرائیلی پولیس کے ترجمان کے حوالے سے خبررساں ادارے کا کہنا تھا کہ تل ابیب کے شمال میں واقع قصبے میشمیرت میں گرنے والے راکٹ سے ایک گھر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

میشمیرت قصبہ غزہ پٹی سے 80 کلومیٹر دور بتایا جاتا ہے۔ حملے سے سات اسرائیلی شہریوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

14 مارچ کو بھی دو راکٹ تل ابیب کی جانب داغے گئے تھے۔ خبررساں اداروں نے اس وقت تل ابیب کے ذرائع سے بتایا تھا کہ دونوں راکٹوں کے گرنے سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔

مؤقر اسرائیلی اخبار ہیرٹز کے مطابق امریکی دورے پر موجود اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں اپنا دورہ مختصر کرکے واپس اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔

امریکہ سے جاری کردہ اپنے بیان میں نتن یاہو نے کہا تھا کہ غزہ سے راکٹ کا داغا جانا ایک مجرمانہ فعل ہے جس کا انتہائی سخت جواب دیا جائے گا۔

خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ دورے کو مختصر اس لیے کر رہے ہیں تا کہ وطن پہنچ کرموجودہ بحران کی خود نگرانی کریں۔

نتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ آج کسی وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کریں گے جس کے بعد وطن واپس لوٹ جائیں گے۔

اسرائیل میں مالی بدعنوانی، کرپشن اور اقربا پروری جیسے سنگین نوعیت کے الزامات کا عدالت میں سامنا کرنے والے وزیراعظم نتن یاہو کے دورہ امریکہ پر مؤقر اسرائیلی اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کو ’تحفے‘ میں دے دی ہیں اور جواب میں کچھ بھی نہیں مانگا ہے۔

اسرائیلی اخبار کے مطابق ماضی میں ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ امریکی حمایت کے جواب میں اسرائیل کو کچھ ادائیگی کسی بھی شکل میں کرنا ہوتی تھی لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے۔ ہیرٹز کے مطابق یہ نتن یاہو کی ’بے مثال‘ کامیابی ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ اسرائیل میں عام انتخابات کے انعقاد میں محض دو ہفتوں سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے اوراندرون ملک اسرائیلی وزیراعظم کو شدید مخالفت کا نہ صرف سامنا ہے بلکہ سیاسی طور پربھی مبصرین کے مطابق وہ انتہائی کمزور وکٹ پر تھے لیکن ان کے حالیہ دورہ امریکہ نے ان کی سیاسی پوزیشن میں بہتری پیدا کردی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے سیاسی مخالفین نے تین دن قبل تل ابیب کا دورہ کرنے والے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائک پومپیو کو اس لحاظ سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ انہوں نے اپنے دورے میں صرف وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔

سیاسی مخالفین کے مطابق جب عام انتخابات کے انعقاد میں دو ہفتے ہی رہ گئے ہیں تو ایسے میں اس دورے کو نتن یاہو کی حمایت کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا حالانکہ مائک پومپیو نے ایسی کسی بھی بات سے انکار کیا تھا۔

اسرائیلی اخبار ہیرٹز نے سینئر کالم نگار اور ایڈیٹر ’Bradley Burston‘ کا ایک کالم شائع کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اگراسرائیل میں 9 اپریل کو ہونے والے عام انتخابات میں لوگ نتن یاہو کو ووٹ دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حماس کی ایک شکل کو ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں