اسلام آباد: دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ملکی مفاد میں ہے، اب اس پر شک و شبہے سے بالاتر ہوکر کام کرنا چاہیے۔
پروگرام نیوزلائن میں میزبان ڈاکٹرماریہ ذوالفقار سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ بھارت یا دنیا جس نام کےبارے میں الزام لگاتے ہیں، ہمیں ان کے حوالے سے محتاط ہونے کی ضرورت ہے، قومی ایکشن پلان پوری سیاسی قیادت کامشترکہ فیصلہ تھا، جس کے نتائج بھی سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ اختلافات کے باوجود کئی مسائل پرساتھ ہیں، نیشنل ایکشن پلان پرماضی میں کام ہوا جس سے کراچی، بلوچستان کی صورتحال بہترہوئی، ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا۔
عبدالقیوم نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ضروری ہے لیکن ہرایک شخص کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا، معاشرے میں جگہ دینے سے پہلے ان کی ذہنی تربیت ضروری ہے ورنہ جیسے ایک جماعت نے پہلے ووٹ لیے اورپھرانہیں جیل میں ڈالنا پڑگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کا تجربہ ہے کہ وہ غلطیاں نہیں کرنی چاہیئں جن سے ہمیں پہلے نقصان ہوا ہے، ہمیں خلوص نیت سے اس معاملے پر آگے بڑھنا چاہیے۔
کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ملکی مفادمیں ہے،اعجازاعوان
میجر جنرل (ر)اعجاز اعوان نے کہا کہ دنیا کا ماحول بدل گیا ہے، پہلے جو لوگ جہادی تھے انہیں پھر دہشتگرد قراردیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ حکومت اور فوج ایک صحفے پرموجود ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنی ہے، ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا جس سے بات آگے نہیں بڑھتی تھی،اب یہ کرنا پاکستان کے مفاد کی ضرورت ہے۔
صرف مرکزی دھارے میں لانا ہی مسئلے کا حل نہیں، کیا کالعدم تنظیموں کے ساتھ ہرشخص کے جڑے کا ریکارڈ موجود ہے۔ جو دہشتگردی میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی، اس کی ابتداء مذاکرات سے ہی ہوگی ۔
ایسی کارروائی ہونی چاہیےجس پرکوئی سوال نہ اٹھاسکے،نصراللہ ملک
سئینر صحافی نصراللہ ملک نے کہا کہ پاکستان پردباوپہلے بھی تھا، آج بھی ہے کہ ماضی میں ہمارے ہتھیاروں والے جھتے رہے، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا توہم پردباو نہ ہوتا، افغان جہاد میں بھی ہماری کوئی پالیسی نہیں تھی جس کا نقصان ہوتا رہا ہے۔
نصراللہ ملک کا کہنا تھا کہ دنیا بدل چکی ہے کہ اب بیس سال پہلے والے حالات نہیں ہیں، ہمیں حقیقی معنوں میں ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ کوئی سوال نہ اٹھا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ اجتماعی طورپرکارروائی نہیں کی جاسکتی بلکہ ان میں فرق ہے، جہاں شکایت ہوں وہاں کارروائیاں ہر صورت اور بھرپورہونی چاہیے۔