گواہی میں تضاد ،2ملزمان قتل کے مقدمے سے 12سال بعد بری

درخواست خارج

فائل فوٹو


اسلام آباد:  سپریم کورٹ پاکستان نے گواہی میں تضادات کی بنیاد پر 12 سال بعد دو ملزمان کو قتل کے مقدمے سے بری کر دیا ہے۔

ملزمان عبداللہ ناصر اور طاہر عبداللہ پر 2007 میں محمد صدیق کے قتل کا الزام تھا، ٹرائل کورٹ نے دونوں کیلئے  سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے سزا عمر قید میں بدل دی تھی۔

سپریم کورٹ میں آج کی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مرنے والا اور مارنے والا سب فارغ ہو جائیں گے، قصور عدالت کا نہیں گواہ کا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: قتل کا ملزم 10 سال بعد بری

52 بار سزائے موت پانے والا سپریم کورٹ سے بری

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ گواہی میں اتنا جھوٹ شامل تھا کہ یقین کرنا مشکل تھا۔ عدالت نے کہا کہ زخمی گواہ عبد المجید کے مطابق وہ آدھا گھنٹہ زمین پر پڑا رہا، اس بات پر یقین کرنا ناممکن ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ گواہ عبد المجید نے عدالت میں کچھ اور بیان دیا، بتایا گیا کہ قتل کا محرک زمین تھی، ریکارڈ سے قتل کا محرک واضح نہیں۔

عدالت نے کارروائی مکمل کرتے ہوئے ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

چند روز قبل بھی سپریم کورٹ نے 52 بار سزائے موت پانے والے ملزم صوفی بابا کو بری کردیا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزم واقعہ کے وقت جائے حادثہ پر موجود نہیں تھا اور پراسیکوشن نے بھی کوئی ثبوت دئیے۔

صوفی بابا پر الزام تھا کہ انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں  سخی سرور دربار پر حملوں کیلئے خودکش حملہ آ ور تیار کئے تھے۔ مذکورہ حملے 2011 میں ہوئے تھے۔

12 فروری 2019 کو بھی سپریم کورٹ نے  قتل کے ملزم اسفندیار کو 10 سال بعد بری کر دیا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، مجسٹریٹ شناخت پریڈ درست نہیں کی اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، اس لیے ملزم کو بری کیا جاتا ہے۔


متعلقہ خبریں