قومی اسمبلی، بھارتی دراندازی پر حکومت اور اپوزیشن ہم آواز


اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ہندوستان ہمارے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر حملہ کرنے کا خواہشمند ہے۔ اپوزیشن بارڈر کے فرنٹ پر کھڑے ہونے کو تیار ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا۔ خورشید شاہ نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج وزیر اعظم عمران خان کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔ بھارت یہ یاد رکھے کہ جہاد ہمارے لیے حلال ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

انہوں ںے کہا کہ پاکستان کی عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا ہمہ وقت تیار کھڑی ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ آج سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو بات کرنے کی اجازت دینا چاہیے تھی۔ ہمارا تجربہ زیادہ ہے اور اگر اپوزیشن بات کرتی تو اچھا تاثر جاتا۔

انہوں ںے کہا کہ آج ایوان میں سب کو بھارتی جارحیت پر متحد ہونے کی ضرورت ہے اور بھارت کے خلاف ایک مؤقف پر رہنا چاہے۔

خورشید شاہ نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا جس کی اپوزیشن اراکین نے ہاتھ اٹھا کر تائید کی تاہم حکومتی اراکین نے تائید نہیں کی، جس پر اپوزیشن اراکین نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔

حکومتی رکن فخر امام نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ قومی قیادت کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔ جواب تو اسامہ آپریشن کے وقت ہی دینا چاہیے تھا جو نہیں دیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو فیصلہ کرنا ہو گا فخر کے ساتھ جینا ہے یا سر جھکا کر۔

اس موقع پر حکومتی رکن علی محمد خان نے کہا کہ ہندوستان نے رات کے اندھیرے میں بزدلانہ کارروائی کی۔ پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

بھارتی فضائیہ کی دراندازی پر اپوزیشن رہنماؤں کا ردعمل

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور ایٹمی ملک ہے لیکن اگر ہندوستان اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آیا تو اس کو بھرپور جواب دینا بھی جانتے ہیں اور بھارت کے ہزار سے زائد ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔

مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ آصف نے خطاب کرتے ہوئے کہا متحدہ عرب امارات میں بھارت کو گیسٹ آف آنر کا درجہ دیا جا رہا ہے، ہمیں اس معاملے پر او آئی سی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اور  سشما سراج کو مہمان خصوصی بلانے پر ہمیں اپنا درعمل دینا چایئے جو نہتے کشمیریوں کا قتل عام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر پوری قوم کو ایک مؤقف پر ڈٹ کر بھارت کو جواب دینا ہو گا اور ہمیں کشمیریوں کی مدد کرنے کے لیے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ آج کے اجلاس سے زیادہ اہم کچھ نہیں تھا اور اس اجلاس میں وزیر اعظم کو موجود ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں اس ملک کا خود احترام کرنا ہے اور لوگوں کو بتانا ہے کہ یہ ملک چھوٹا ضرور ہے لیکن اپنی حفاظت کرنا جانتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا ڈومیسٹک جارحیت سے بین الاقوامی جارحیت تک پہنچ چکی ہے جو پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ ہمیں اپنے برادر اسلامی ممالک کو بتانا چاہیئے کہ وہ کس طرح کی جارحیت ایک مسلمان ملک اور کشمیری عوام کے ساتھ کررہا ہے۔

ایاز صادق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں او آئی سی ممبر ممالک میں اپنے وفود بھیجنے چاہیں، او آئی سی کے پاپس یہ اختیار نہیں کہ وہ دیگر ممالک کی اجازت کے بغیر کسی کو بلائے اور پاکستان کو کسی صورت او آئی سی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب عزت سے جینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہمیں آج ہی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے جب کہ پاکستان کو بھارت سے تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ مجھے فخر ہے آج پارلیمنٹ بھارت کے خلاف متحد ہے، ہمارے گلے شکوے اپنی جگہ لیکن ہاکستان کے دفاع کے لیے سب ایک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ردعمل بھارتی ظلم کا نتیجہ ہے اور بھارت اپنے ردعمل میں الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں افواج پاکستان کے سربراہان کو بھی بلانا چاہیے۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما امین الحق نے بھی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر جارحیت کی بھی اجازت نہیں دیں گے۔


متعلقہ خبریں