لاہور: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) نے اصغرخان کیس سے متعلق اپنی رپورٹ میں فائل بند کرنے کی سفارش کردی ہے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ کیس پر فوجداری کارروائی ہو سکے، جن سیاستدانوں پر الزام تھا انہوں نے رقم کی وصولی سے انکار کیا اور اہم گواہوں کے بیانات میں بھی تضادات ہیں۔
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ معاملہ 25 سال سے زیادہ پرانا ہے، متعلقہ بینکس سے پیسہ اکاؤنٹس میں جمع ہونے کا مکمل ریکارڈ نہیں ملا۔
خیال رہے کہ اصغر کیس میں بڑے بڑے سیاستدانوں پر 90 کے الیکشن میں پیسہ لے کر دھاندلی کرانے کا الزام تھا اور سپریم کورٹ نے 90 کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے رقوم تقسیم کرنے کے معاملہ کی ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور نواز شریف سمیت 31 افراد کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
اصغر خان کیس کیا ہے؟
صغر خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ 1990 کی دہائی میں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دینے کے لئے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا مختصر فیصلہ 19 اکتوبر2012 کو سنایا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جن سیاست دانوں نے یہ پیسہ لیا تھا ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔