اسلام آباد: نامور ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا ہے کہ اسد عمر کو انتخابات سے پہلے علم تھا کہ وہ وزیرخزانہ بنیں گے لیکن ان کی تیاری مکمل نہیں تھی اس لیے وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ میں انہیں نمبر دینے سے احتراز کروں گا لیکن ان کی کارکردگی بہتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی نیا وزیر آتا ہے وہ اپنی ٹیم ساتھ لاتا ہے، موجودہ حکومت نے اس ٹیم کو برقرار رکھا جو اسحاق ڈار کے ساتھ کام کرتی تھی، اس ٹیم نے حکومت کو پرانے راستے پر چلا دیا ہے، پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کا اہم ترین شخص وہ ہے جسے معیشت کا کچھ علم نہیں ہے۔
اشفاق حسن خان نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو جس فیاضی سے امداد فراہم کی ہے اس کا کریڈٹ پاکستان کی سیاسی قیادت کو جاتا ہے، اس سے قبل یو اے ای نے پاکستان کو کبھی اتنی زیادہ امداد نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل نے جو بجٹ دیا تھا وہ بدنیتی پر مبنی تھا، اسی طرح اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے جان بوجھ کر معیشت کو خراب کیا تاکہ آنے والی حکومت اسے درست نہ کر سکے۔ نامور معیشت دان جان کینز نے 1937 میں کہا تھا کہ سادگی کی طرف اس وقت جانا چاہیئے جب معیشت ترقی کر رہی ہو۔
بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک سال کے لیے ان تمام اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہیئے جن کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے، عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) بھی ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سے پاکستان میں ڈالر کی کمی نہ ہوتی۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بارے میں اشفاق حسن خان نے کہا کہ پاکستان کو اس ادارے کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے، وزارت خزانہ میں لوگ پڑھتے نہیں ہیں ورنہ یونان کے معاشی بحران کے بعد دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ معاشی استحام کے بجائے ایسی معاشی نمو کی طرف جانا چاہیئے جس سے ملازمتیں پیدا ہو سکیں۔
توانائی کے بارے میں عامر ضیاء کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ اس سے ہمارا توانائی کے شعبے کا خسارہ بڑھے گا جسے پر کرنے کے لیے ایک بار پھر بجلی کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی اور ہم دائرے میں گھومتے رہیں گے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے وزیرخزانہ اسد عمر کی کارکردگی کے بارے میں کہا کہ وہ انہیں دس میں سے ساڑھے تین نمبر دیتے ہیں۔ وزارت خزانہ اور اس سے متعلقہ دیگر ادارے درست سمت میں کام نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے حکومت سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ سعودی عرب یا آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو انہیں شرم آئے گی، بعد میں وہ دونوں کے پاس گئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معیشت کے بارے میں ان کی تیاری مکمل نہیں تھی۔
محمد زبیر نے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بارے میں وزیراعظم کہتے ہیں کہ انہیں اس بارے میں ٹیلی ویژن سے پتا چلا جبکہ اسد عمر نے واضح طور پر کہا تھا کہ وزیراعظم کو ایک شام پہلے معلوم تھا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے تاہم انہیں معاشی ترقی پر توجہ دینی چاہیئے تھی اس سے عوام کی مشکلات کا کچھ ازالہ ہو جاتا۔ اس وقت معیشت بھی ترقی نہیں کر رہی اور افراط زر بھی بڑھ رہا ہے۔
حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے سابق گورنر نے کہا کہ سعودی عرب اور یو اے ای کی طرف سے ڈالر ملنے کے بعد حکومت کو آئی ایم ایف کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیئے اور اس کی سخت شرائط تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پروگرام کے میزبان عامر ضیاء نے بنگلہ دیش کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی معاشی شرح نموگزشتہ 10 برس میں اوسطاً 6 فیصد سے زیادہ رہی ہے اور امکان ہے کہ 2021 تک یہ 10 فیصد ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹس کی صنعت چین کے بعد دوسرے نمبر پر آ گئی ہے، یہاں کی فی کس آمدنی گزشتہ 10 برس میں 3 گنا بڑھ کر 1750 ڈالر ہو گئی ہے، 2009 میں بنگلہ دیش میں 19 فیصد لوگ شدید غربت کا شکار تھے، اب یہ شرح 9 فیصد رہ گئی ہے۔
بنگلہ دیش کے بارے میں مزید اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے عامر ضیاء نے بتایا کہ وہاں کی برآمدات اس وقت 36.7 ارب ڈالرتک پہنچ گئی ہیں جبکہ 2021 تک اسے 50 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے، گارمنٹس کی صنعت ملکی برآمدات کا 80 فیصد ہے اور 45 لاکھ ملازمتیں فراہم کر رہی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی آئی ٹی کی برآمدات ایک ارب ڈالر ہیں اور 2021 تک 5 ارب ڈالر کا ہدف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں بھی اسی قسم کی معاشی کارکردگی دکھانی چاہیئے ورنہ پی ٹی آئی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کر پائے گی۔