اسلام آباد: قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں کئی دلچسپ مناظر دیکھنے میں آئے۔ ایک طرف تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے پرجوش مصافحہ توجہ کا مرکز بنا دو دوسری جانب ن لیگی رہنما سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
اسپیکر ایاز صادق کی صدات میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ شہباز شریف کے اظہار خیال کے دوران آصف زرداری کی آمد ہوئی جس پر انہوں نے اپنا خطاب روک کر پی پی پی شریک چیئرمین کو ’ویلکم’ کہا۔
شہباز شریف نے سانحہ اے پی ایس کو بزدلانہ واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر پوری قوم آج تک اشک بار ہے، اس نے پوری قوم کو متحد کر دیا۔
انہوں نے اس موقع پر کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کل کشمیر میں 14 کشمیری شہید کر دیئے گئے، اقوام عالم اس ظلم پر خاموش ہے، مجھے کسی مذہبی بحث میں نہیں جانا، مگر کشمیر ہو یا فلسطین ہو، ظلم و زیادتی کی انتہا ہو چکی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو ٹھوس موقف سامنے لانا ہو گا، ہندوستان کو مجبور کرنے کے لیئے حکومت اپنے سفارتی وسائل بروئے کار لائے، دنیا کو کشمیر مسئلے پر جگانا ہو گا، اپوزیشن کشمیریوں کے لیئے حکومت کا مکمل ساتھ دے گی، ہمیں، اسلامی بلاک، مغرب سب کو جگانا ہو گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ جناب اسپیکر آپ ایوان کو پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر چلا رہے ہیں، سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر ابھی تک جاری نہیں ہوئے، ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کیئے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ محترم زرداری صاحب اور نوجوان بلاول بھی تشریف فرما ہیں، وہ بھی اس پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی حمایت میں ہیں۔
اپنے خطاب کے دوران انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر سماء ٹی وی کے کیمرہ مین کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر جس طرح چائیں اس واقع کی تحقیقات کرائیں ہم ساتھ دیں، میں میڈیا سے بھی معذرت کرتا ہوں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کی ہدایت کی ہے
اسپیکر نے پارلیمنٹ ہاؤس میں نجی سیکیورٹی گارڈز کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ صرف پارلیمنٹ کی سیکیورٹی ہی تعینات رہے گی۔
قومی اسمبلی میں آرمی پبلک اسکول سانحے کے شہداء کی چوتھی برسی پر فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق یریں مزاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج تک کوئی بھی مستحکم قرارداد پاس نہیں کی , مشرف لائن آف کنٹرول پر ہی بات کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر جو ظلم ہوتا ہے ہم نے اس پر کچھ کیا ہی نہیں ، مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے، کبھی کبھی ہم وفود بھیج دیتے ہیں، ان وفود میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں کشمیر کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نائن الیون کے بعد ایسی دفاعی پوزیشن میں چلے گئے کہ کشمیر کے معاملے کو پیچھے چھوڑ دیا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتی کوتاہیوں کے نتیجے میں ہم نے کشمیریوں کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے اقوام متحدہ کی ٹیم کو آزاد کشمیر میں اجازت کیوں نہیں دی، کتنا کشمیریوں کا خون بہایا جائے گا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس ہاؤس کو چلانا صرف حکومت نہیں اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے، اپوزیشن نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا تھا اور کرا دیا، درخواست کروں گا کہ اپوزیشن اجلاس میں واپس آ جائے،
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ایوان کی کاروائی کو معنی خیز بنائیں، کورم پورا ہے۔ اپوزیشن ایوان میں تشریف لے آئے۔
بعدازاں اسپیکر نے قومی اسمبلی اجلاس جمعرات دن گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔