العزیزیہ میں دلائل کا فیصلہ کل، فلیگ شپ کی سماعت ملتوی

ارشد ملک نے جاتی امرا میں ملاقات کی من گھڑت تفصیلات بتائیں، نوازشریف

فوٹو: فائل


اسلام آباد: احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کے حتمی دلائل کا فیصلہ کل بدھ کو ہوگا جب کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت بھی کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔

منگل کے روز احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کی۔

خواجہ حارث نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس جو دستاویزات تھے وہ لینڈ رجسٹری میں نہیں تھے۔ جس پر تفتیشی افسر نے مؤقف اختیار کیا کہ کاغذات تو موجود تھے لیکن تازہ نہیں تھے۔ لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ کو آخری ہیسٹوریکل ایڈیشن کے لیے درخواست دی تھی جس کے بعد ہیسٹوریکل کاپی مجھے مل گئی تھی تاہم لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ نے معلومات کی بنیاد پر جواب دیا۔

خواجہ حارث نے الجھن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بے وقوف ہوں ساری دنیا کو سمجھ آتی ہے لیکن مجھے نہیں، سوال کا جواب دیں یا نہ دیں رضاکار بہت آتے ہیں۔ میرا اگلا سوال یہ ہے کہ 31 اکتوبر 2007 کی تاریخ کے بارے میں کیا معلومات تھیں۔

تفتیشی افسر نے مؤقف اختیار کیا کہ میں نے لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ کو بتایا کہ مجھے حسن نواز کی جائیداد کی معلومات چاہیے لیکن انہوں نے کہا کہ اگر اگر آپ 31 اکتوبر 2007 کی تاریخ کو منشن کریں گے تو ہم آپ کو معلومات فراہم کریں گے۔

خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ آپ نے لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ سے جائیداد کے حوالے سے کیا پوچھا تھا ؟

محمد کامران نے جواب دیا کہ میں نے لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ سے موجودہ ملکیت کے بارے میں پوچھا تھا اور مجھے ہسٹوریکل کاپی جب ملی تو اس پر 31 اکتوبر کی تاریخ لکھی تھی اور درخواست کے مطابق یہ جائیداد فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے منسلک تھی اور ان میں سے ایک کمپنی حسن نواز کی تھی۔

نواز شریف سماعت کے دوران دوپہر بارہ بجے جج کی اجازت سے واپس روانہ ہو گئے۔

العزیزیہ ریفرنس کی سماعت شروع ہوتے ہی عدالت نے پہلے دلائل دینے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا تاہم العزیزیہ ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز منگل کو نہ ہو سکا اور عدالت نے شروع ہونے والے حتمی دلائل مؤخر کر دیے۔

نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم نے دستاویزات کے ذریعے اپنا دفاع پیش کر دیا ہے اور دفاع آنے کے بعد وکیل صفائی حتمی دلائل کا آغاز کریں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات دفاع کے زمرے میں نہیں آتی ہیں کیونکہ یہ دستاویزات سوال کے جواب میں پیش کی گئیں ہیں اور دستاویزات میں سپریم کورٹ کی آرڈر شیٹس اور ہماری وہاں جمع کرائی گئی درخواستیں ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں ثبوت کے مشاہدے کے بات کی گئی ہے اور دفاع زبانی یا دستاویزی شکل میں گواہ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ دستاویزات دفاع میں پیش کرتے تو انہیں باضابطہ طور پر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنواتے۔ اس لیے ہم نے دستاویزات اپنے دفاع میں پیش نہیں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی طرف سے دفاع سے متعلق سوال کا جواب نفی میں دیا گیا ہے اور ہم ان دستاویزات پر احتساب عدالت یا ہائی کورٹ میں دلائل نہیں دیں گے۔

خواجہ حارث کی جانب سے نواز شریف کے 342 کے تحت بیان کا پیشگی سوالنامہ طلب کیا گیا تھا جس کے دینے کا فیصلہ بھی آج ہونے کا امکان ہے۔

گذشتہ سماعت میں جرح کے دوران تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ نواز شریف کے بیرون ملک اپنے بچوں کو رقم بھیجنے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں اور نواز شریف کے اپنے اکاؤنٹس سے بچوں کی تعلیم یا کمپنیز کی تشکیل کے لئے رقم بھجوانے کے بھی کوئی شواہد نہیں ملے۔


متعلقہ خبریں