تاریخ کچھ یوں ہے کہ جب کبھی ملک میں سیاسی بے چینی پیدا ہوئی اور اس میں شدت آئی توایک جانب حزب اختلاف نے صف بندی کی اور دوسری جانب حکومت سرکاری اداروں کے ساتھ مدمقابل آئی، دونوں اطراف سے الزامات کی شکل میں پہلے زبانی گولہ باری ہوئی، پھر احتجاج اور جلسے جلوس کو نوبت پہنچی جن میں بسا اوقات تشدد بھی ہوا لیکن نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلا جو اسکرپٹ رائٹر پہلے سے لکھ چکا تھا۔
اگر ہم سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی یعنی ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے خلاف نو جماعتیں متحد ہوئیں، بڑا الزام انتخابات میں دھاندلی کا تھا، حزب اختلاف دوبارہ شفاف انتخابات چاہتی تھی اور حکومت اس سے گریزاں تھی۔ احتجاج بڑھا، پھر اس میں تشدد شامل ہوا، بھٹو نے فیڈرل سیکیورٹی فورس استعمال کی، مسلح افواج کے سر براہوں سے اپنے حق میں بیانات دلوائے تاہم مذاکرات جاری رہے جن میں نئے انتخابات پر اتفاق ہو گیا مگر آخرکار ہوا وہی جو اسکرپٹ میں لکھا گیا تھا۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق ہو جانے کے باوجود مارشل لا لگا دیا گیا، یہی نہیں اس کے بعد کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہی ہے ڈیڑھ سے تین سال کی درمیانی عمر کی حکومتیں گرائی جاتی رہیں اور بنائی جاتی رہیں، سب طے شدہ اسکرپٹ کے تحت جاری رہا، اب بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔
آج عمران خان کی حکومت کے خلاف بھی نو جماتیں متحد ہیں، آزادی مارچ کے بعد دھرنا جاری ہے، تمام ادارے بشمول افواج پاکستان اپنے آئینی کردار اور ذمہ داری کے ساتھ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، مصالحتی عمل بھی جاری ہے لیکن ہونا وہی ہے جو اسکرپٹ میں لکھا جا چکا ہے۔
تاریخ خود کو دہرا رہی ہے یا اسکرپٹ رائٹر کے پاس کوئی نیا آئیڈیا، خیال نہیں ہے یا شاید سامعین، ناظرین، حاضرین کو ایک ہی اسکرپٹ پسند ہے اس لیے کوئی نیا کھیل نہیں ہے۔ برسہا برس سے یعنی تقریبا 50 سال سے ایک ہی اسکرپٹ پرکھیل کھیلا جا رہا ہے، بس اس فرق کے ساتھ کے منظر نامہ اتنا تبدیل ہوتا ہے کہ جو کھلاڑی جس پول پر کھڑا ہوکر گول بچا رہا ہوتا ہے ہاف ٹائم کے بعد اسی پول پر گول مار رہا ہوتا ہے۔
زیادہ دور نہیں پانچ سال پہلے کی بات ہے، یہی مارچ اور دھرنا تھا، پانچ سال پہلے بھی وزیراعظم سے استعفٰے مانگا جا رہا تھا آج بھی استعفی مانگا جا رہا ہے، فرق اتنا ہے کہ کل جو استعفٰے مانگ رہے تھے آج انہی سے استعفٰے مانگا جا رہا ہے۔ اسکرپٹ رائٹر نے کچھ بھی تبدیل نہیں کیا، کردار وہی رہے البتہ اداکار بدل گئے۔
90 کی دہائی میں جائیں تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہر سال ڈیڑھ سال کے بعد حکومت کے خلاف میدان میں نکل آتی تھیں، اپوزیشن اتحاد بناتی تھی، سیاسی جماعتیں اپنی جگہ بدلتی رہتی تھیں، کبھی ایک اتحاد میں تو کبھی دوسرے اتحاد میں مگر الزامات ایک جیسے ہی تھے، لا قانونیت، امن وامان، دہشت گردی، اقرباپروری اور قومی دولت کی لوٹ مار۔
حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، اسکرپٹ ایک ہی رہتا تھا۔ حکومتیں بنتی تھیں پھر توڑ دی جاتی تھیں جنھیں مذکورہ الزامات کے تحت حکومت سے بیدخل کیا جاتا تھا، دو ڈھائی سال بعد وہی پھر حکومت میں آ جاتے تھے کیونکہ اسکرپٹ تبدیل نہیں کیا جاتا تھا، شاید اسی کو تاریخ کا دہرانا کہا جاتا ہے۔ پانچ سال قبل 2014 میں آج کے وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مارچ اور دھرنا کیا تھا، ان کی حکومت کو دھاندلی کی حکومت کہا تھا، کرپشن کے الزامات لگائے تھے اور آج وہی الزامات آج کے وزیراعظم عمران خان پر لگائے جا رہے ہیں۔
انھیں سلیکٹڈ وزیراعظم کا خطاب دینے کے بعد اب ریجیکٹڈ وزیراعظم کا خطاب بھی دے دیا گیا ہے، ان کے خلاف آزادی مارچ اور دھرنا ہو رہا ہے، اس مرتبہ مارچ اور دھرنے کی قیادت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں، بلا شبہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم مارچ اور دھرنا ہے جس نے حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے اور بین الاقوامی قوتوں کو بھی نوٹس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چوہدری برادران کے ذریعے شریف برادران سے معاملات طے کرانے کے بعد اب مولانا فضل الرحمٰن سے بھی معاملات طے کرانے کے لیے انھیں ہی ٹاسک دیا گیا ہے، پہلے بھی تحریر کیا ہے کہ چوہدری شجاعت مذاکرات پر نہیں معاملات پر یقیں رکھتے ہیں، جنوری 2013 میں پیپلزپارٹی کے دور کے آخر میں علامہ طاہرالقادری نے لاہور سے مارچ کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اسے ختم کرانے میں بھی چوہدری شجاعت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت چوہدری برادران پیپلزپارٹی کی حکومت کے اتحادی تھے، آج وہ عمران خان کے اتحادی ہیں۔ یہاں بھی طے شدہ اسکرپٹ نظرآتا ہے۔
چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی لیکن مولانا نے جو سخت موقف اور رویہ اپنایا ہوا ہے اس میں چوہدری برادران کو فوری کامیابی ملتی نظر نہیں آتی جس طرح کی کامیابی انھیں شریف برادران کے حوالے سے ملی ہے۔ حکومتی ارکان کی جانب سے جو لفظوں کی گولہ باری ن لیگ کی قیادت پرہوا کرتی تھی وہ بھی رک گئی ہے، مسلم لیگ ن کی جانب سے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی آ گیا۔
چوہدری شجاعت کی کوششوں سے اب وزیراعظم عمران خان کے رویے میں مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے بھی تبدیلی آتی نظر آ رہی ہے تاہم مولانا کا دل نرم ہوا ہے یا نہیں اس کا پتہ جلد چل جائے گا، چوہدری برادران کی مولانا سے ملاقات کے بعد اکرم خان درانی اور چوہدری پرویز الہٰی کی میڈیا سے جو گفتگو تھی اس میں دونوں رہنماوئں کی باڈی لینگویج اور بات چیت سے پتہ چل رہا تھا کہ کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
مولانا ایک مخصوص بیانیے کے ساتھ ایک بڑا جم غفیر لے کراچی سے روانہ ہوئے اور اب ملک کے چاروں کونوں سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، ان کے ساتھ آٹھ جماعتیں اور بھی ہیں، اپنے بیانیے کو بدلنا اور دیگر جماعتوں کو مطمئن کرنا بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس امر کے باوجود کہ دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اب تک دھرنے میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن یہ جماعتیں خود کو اس بڑے سیاسی ماحول اور سرگرمی سے باہر بھی نہیں رکھ سکتیں۔
اگر مولانا نے چند دن اور اس دھرنے کو جاری رکھا تو یہ جماعتیں بھی سیاسی مجبوری کے تحت شامل ہوں گی، بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ کارکن کہیں گے تو ہم ضرور شریک ہوں گے اور مسلم لیگ کے حلقوں کا یہ کہنا کہ مریم نواز بھر پور سیاست کریں گی اور ممکنہ طور پر دھرنے سے بھی خطاب کریں گی، واضح اشارے ہیں کہ وہ مولانا کے ہر اقدام میں ان کے ساتھ ہیں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ تاریخ کوئی منجمد شے نہیں یہ مسلسل رواں رہنے والی ہے لیکن انسان تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا بلکہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس سے قبل ہوتا تھا اورالزام تاریخ پر آ جاتا ہے کہ خود کو دوہرا رہی ہے۔ معلوم نہیں کہ ہم تاریخ سے سیکھنا کب شروع کریں گے؟