ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ دو افراد مبینہ پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے سالانہ اسی طرح کے اعداد و شمار سامنے لاتے ہیں، جنہیں اکثر نظر انداز کردیا جاتا۔ لاتعداد مبینہ پولیس مقابلوں کی محکمانہ تفتیش میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا جاچکا ہے، لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی مثال نہیں جس میں ان سے کسی کو فوجداری قانون کےتحت سزا دی گئی ہو۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے افراد کسی نہ کسی جرم میں ملوث تھے اور انہیں اس لئے جان سے مار دیا کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کے تحت شاید ہی کبھی سزا پاتے۔ گویا پولیس قانون نافذ کرنے اور “فوری انصاف” فراہم کرنے والے اداروں کا کردار بیک وقت نبھانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔
ہمیں اکثر یہ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ یہ برطانوی راج کے مرتب کردہ انضباطی قواعد و ضوابط کے تحت کام کررہی ہے۔ یہ ایک پرُکشش “عوامی نعرہ” ہے اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ہر حکمراں نے اس کو استعمال کیا ہے۔ ستر کی دہائی میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اکثر اوقات پولیس پر گرجتے برستے نظر آتے۔ اسی طرح صدر جرنل ضیاالحق، اگرچہ تمام تر ریاستی و حکومتی طاقت کا سرچشمہ تھے۔ لیکن وہ بھی عوامی مقبولیت کے خیال کے زیر اثر پولیس اصلاحات کی نوید سناتے رہتے۔ اس کے بعد آنے والی تمام فوجی و سویلین حکمراں بھی پولیس نظام میں اصلاحات کی خبریں تواتر سے سناتے رہے، یہاں تک20 ستمبر 1996ء کو اُسوقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی، مرتضٰی بھٹو کو کئی ساتھیوں سمیت کراچی میں پولیس مقابلے میں جان سے ماردیا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد بھی پولیس اصلاحات نہیں ہوتیں۔
آج پھر پولیس نظام میں اصلاحات کا زوردار مطالبہ کیا جارہا ہے کیوں کہ پولیس کے انسداد دہشت گردی کے یونٹ نے 19 جنوری 2019 کو ساہی وال میں ایک بظاہر پرامن خاندان کو دن کی روشنی میں فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ وقوعہ کے وقت مارے جانے والے افراد کے کم سن بچے بھی گاڑی میں موجود تھے۔ یہ سانحہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے جب پنجاب میں اُس جماعت کی حکومت ہے جو خیبر پختونخواہ کی پولیس کو نکیل ڈال دینے کے دعوئے کرتی رہتی ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں بھی پولیس اتنی ہی ظالم تھی جتنی باقی صوبوں، خاص طور پر پنجاب میں ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے پولیس کو عوام دوست بنادیا۔ واضح رہے کہ پولیس کی عوام دوستی کے باوجود، خیبر پختوانخواہ میں 2018ء میں سو سے زائد افراد پولیس مقابلوں یا تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے گئے۔ پنجاب میں بھی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی خاصی بڑی تعداد سامنے آئی اور یہی صورتحال سندھ میں رہی۔
نئی حکومت نے پنجاب پولیس کو نکیل ڈالنے کے لئے خیبرپختوخواہ کے سابق آئی جی ناصر درانی کی خدمات حاصل کیں۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں درانی صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ پنجاب میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی منتخب ایوانوں میں موجودگی کی وجہ سے وہ پولیس کو “عوام دوست” بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور اسکے بعد وہ استعفیٰ دے کر چلتے بنے۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب میں وزارت داخلہ میں دلچسپی لینے والوں کی ایک بڑی تعداد وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اوروزیراعظم عمران خان بھی اس معاملے میں بے بس ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان پنجاب میں موجود اپنے طاقتور ساتھیوں کی داخلہ اُمور میں مداخلت سے پریشان ہیں کیوں کہ ہر کوئی اپنی مرضی کے پولیس افسران کو اپنے علاقوں میں تعینات کروانا چاہتا ہے۔ ایک طرف صوبائی گورنر کا دھڑا سرگرم ہے تو دوسری طرف جہانگیرترین گروپ مزید طاقت کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے طاقتوراسپیکر چوہدری پرویز الہی بھی گجرات اور مرکزی پنجاب کی مخصوص سیاست میں پولیس کے کردار سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس ادارے میں انتظامی سطح پر اثرورسوخ کے خواہش مند ہیں۔ اسی طرح علیم خان لاہور میں پولیس کے “جاندار” کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اور طاقت کے اس “مسلح مرکز” میں اہم کردار بھی ان ہی کے پاس ہے۔اس چومُکھی کھینچا تانی میں یہ توقع کرنا کہ پولیس اصلاحات ممکن ہیں، تو یہ ایک محض خام خیالی ہوگی۔
حیران کن امر یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بھی پولیس کی طرف سے ماورائے عدالت ہلاکتوں پربے چین ہیں، حالانکہ موصوف کی وزارت اعلیٰ کے دونوں ادوار میں اتنے زیادہ مبینہ پولیس مقابلے ہوئے کہ پنجاب کی تاریخ میں شاید اتنے پولیس مقابلے نہیں ہوئے۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس نے پاکستان عوامی تحریک سے تعلق رکھنے والے متعدد نہتے افراد کو جس بےدردی سے قتل کیا اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن میاں شہباز شریف انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ ساہیوال واقعے کے سیاسی فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں پولیس کے متنازعہ کردار پر صرف میڈیا پر ہی نہیں پارلیمنٹ میں بھی بحث ہونی چاہیے اورقومی سطح پر پولیس نظام میں اصلاحات کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر پولیس اصلاحات کمیشن بنائے جائیں تاکہ پولیس کوسیاسی اثرو رسوخ سے حقیقی آزادی دلوائی جاسکے اور پولیس افسران کی تعیناتی کو محکمانہ معاملہ بنایا جائے تاکہ اندرونی احتساب اور کارکردگی جانچنے کے اصولی طریقہ کار کو وضح کیا جاسکے۔ پولیس کے خلاف شکایات کو شفاف اور قابل رسائی ہونا چاہیے تاکہ عام لوگ بھی یہ جان سکیں کہ پولیس افسران قابل مواخذہ ہیں۔ بصورت دیگر ماڈل ٹاون اور ساہیوال جیسے سانحات ہوتے رہیں گے اور ہم محض ایک وقتی اشتعال کے مظاہرے کے بعد دوسرے کسی سانحے کے منتظر رہیں گے۔ جب تک پولیس کا محکمہ آزاد و مختار ںہیں بنتا ، یہ محض مقتدر افراد کا خدمت گار اور ناقابل مواخذہ ہی رہے گا۔ اس میں ذیشان کاظمی،عابد باکسر،نوید سعید، راو انوار اور اس جیسے کردار جنم لیتے رہیں گے۔عام لوگ سڑکوں پر یا اپنے گھروں میں پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے رہیں گے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں اور خصوصی کمیشن محض بڑے افسران کے وقتی تبادلوں سے زیادہ کچھ تجویز نہیں کرسکیں گے۔