کائنات جب سے وجود میں آئی ہے حضرت انسان ا س کی حقیقتوں کا کھوج لگانے کے لئے سرگرداں ہے لیکن انسانی عقل و دانش یہ دعویٰ نہیں کر سکی کہ اس نے خالق کائنات کی بچھائی گئی اس بساط کوپورے طور پر سمجھ لیا ہے یا اس قابل بھی ہو گیا ہے کہ کبھی اس کو سمجھ سکے گا۔ انسان کائنات کی تسخیر کی جستجو میں رہتا ہے لیکن بعض اوقات ٹیکنالوجی اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔
ایساہی ایک واقعہ خلائی تحقیقاتی ادارے (ناسا) کے خلائی جہاز وائجر ٹو کے ساتھ پیش آیا جو کہ انسان کی تخلیق کردہ چیزوں سے میں وہ دوسری چیز بن گیا جو نظام شمسی سے باہر نکل گیا ہے۔
وائجر ٹو نامی خلائی جہاز کو ناسا نے 1977 میں اس کے جڑواں خلائی جہاز وائجر ون سے 16 دن پہلے خلا میں بھیجا تھا لیکن وائجر ون اپنی تیز رفتاری کے سبب وائجر ٹو سے چھ سال پہلے پہنچ گیا تھا۔
دونوں خلائی جہازوں کا بنیادی مقصد مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون کا جائزہ لینا تھا جو انھوں نے سنہ 1989 تک مکمل کر لیا تھا۔ اس کے بعد انھیں دور خلا کی جانب روانہ کر دیا گیا تھا۔
سائنسدانوں کے مطابق اس کو توانائی فراہم کرنے والا پلوٹونیم ایک دن بالآخر اسے بجلی فراہم کرنا بند کر دے گا اس وقت اس کے آلات اور 20 واٹ کا ٹرانسمیٹر بھی ختم ہو جائے گا۔
مشن پر مقرر چیف سائنسداں پروفیسر ایڈورڈ اسٹون نے واشنگٹن میں منعقدہ امریکن جیوفیزیکل یونین (اے جی یو) کی کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا کہ وائجر کو سیاروں کے باہر کی فضا کے مطالعے کے لیے بھیجا گيا تھا لیکن وہ آگے کی جانب بڑھتا رہا اورنظام شمسی کے دائرے سے پانچ نومبر 2018 کو نکل گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس دن سورج سے نکلنے والی شعاع کے ذرات جس کا خلائی جہاز وائجر ٹو سراغ رکھتا تھا اچانک ماند پڑ گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ‘ہیلیو پاز’ عبور کر گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وائجر ٹو خلائی جہاز زمین سے 18 ارب کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ تقریبا 54 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ وائجر ون اس سے آگے ہے اور اس سے تیز رفتار ہے۔ یہ ابھی 22 ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور 61 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔
پروفیسر اسٹون نے کہا کہ مشن کے آغاز پر ٹیم کو اندازہ نہیں تھا کہ اسے سورج کے محافظ بلبلے یا ہیلیو سفیئر کے کنارے تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں نہیں پتہ کہ وہ ببل یا بلبلہ کتنا بڑا ہے؟ وہاں پہنچنے میں وائجر ٹو کو کتنا وقت لگے گا؟ اوریہ کہ کیا خلائی جہازوہاں پہنچنے تک محفوظ رہے گا بھی یا نہیں؟
انھوں نے کہا کہ اب ہم مقامی ستاروں کے ذرائع کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ یہ وائجرز کے 41 سالہ سفر کا انتہائی دلچسپ مرحلہ ہے۔ اس میں دہائیوں کا وقت اور اربوں کلومیٹرکا فاصلہ شامل ہے۔
وائجر کی پروجیکٹ مینیجر سوزانے ڈوڈ کی خواہش ہے کہ یہ سنہ 2027 تک کام کرتے رہیں۔50 سالہ پرانے مشن کو کام کرتے ہوئے دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا۔
امریکی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وائجر ٹو میں ایک ایسا آلہ نصب ہے جو نظام شمسی سے نکلنے اور کہکشاؤں کے درمیان جانے کے سفر کا مشاہدہ پہلی بار بھیجے گا۔