ایل این جی ٹرمینل کمپنیوں نے حکومتی الزامات مسترد کر دیے

پیپلز پارٹی نے ایل این جی اسکینڈل کی تحقیق کا مطالبہ کر دیا

اسلام آباد: لیکویفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی) ٹرمینلز کی دو کمپنیوں اینگرو ایل این جی اور پاکستان گیس پورٹ نے ایل این جی معاہدوں پر نظرثانی کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔

اینگرو ایل این جی نے ان معاہدوں میں کرپشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا  کہ حکومت اور کمپنی دونوں کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ان معاہدوں میں کوئی ترمیم کر سکیں۔

کمپنی کے مطابق انہوں نے 15 سال کا معاہدہ حکومت سے کیا تھا، معاہدے کے بعد ہی کمپنی نے ملکی اورغیرملکی سرمایہ کاروں کے تعاون سے کام شروع کیا تھا۔

کمپنی نے اپنے موٗقف میں کہا کہ ہم نے حکومتی اداروں کو معاہدوں کے حوالے سے ساری معلومات فراہم کر دی ہیں، ہم نے ہمیشہ ملک میں منصفانہ اور شفاف طریقے سے کاروبار کیا ہے۔

اینگروایل ان جی نے الزامات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ٹرمینل کا کام حکومت کی درآمد کردہ ایل این جی کو سسٹم میں منتقل کرنا تھا، یہ سارے معاملات 2013 میں آنے والے گیس کے بدترین بحران کو مدنظر رکھ کر طے کیے گئے تھے۔

پاکستان گیس پورٹ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے یہ معاہدہ بالکل شفاف طریقے سے حاصل کیا تھا اور وہ نئی حکومت کو تمام معلومات فراہم کرنے کو بھی تیار ہے۔

یہ وضاحت ایل این جی معاہدوں کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر برائے پٹرولیم غلام سرور خان کے بیان کے بعد شروع ہونے والے تنازع کے بعد دی گئی ہے۔ دونوں وزرا نے ایل این جی ٹرمینل معاہدوں پر غیرشفافیت کا الزام لگاتے ہوئے ان پر نظرثانی کا اعلان کیا تھا۔

دونوں وزرا نے کہا تھا کہ معمول کے برخلاف اینگرو نے ابتدائی نو ماہ کے دوران 44 فیصد جبکہ پاکستان گیس پورٹ نے 22.74 فیصد نفع (ریٹرن آن ایکویٹی) حاصل کیا تھا جبکہ عام طور پر آئل اور گیس سیکٹر میں 15 سے 17 فیصد نفع ملتا ہے۔

الزامات کے جواب میں اینگرو کا کہنا تھا کہ اس منافع کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے جبکہ باقی حصہ شئیر ہولڈرز میں تقسیم ہوتا ہے۔


متعلقہ خبریں