شاعر آخرالزماں جوش ملیح آبادی کی 37ویں برسی

فائل فوٹو


برصغیرپاک وہند کے نامور شاعر اور اردو مرثیے نام کمانے والے جوش ملیح آبادی کو اس دنیا سے گزرے 37ویں برس ہوگئے لیکن اردو ادب کی دنیا میں وہ آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔

ان کی شاعری میں ایسا اثر تھا کہ جوش  کے نثری اور شعری مجموعے آج بھی ان کے مداحوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔

جوش ملیح آبادی اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔جوش ملیح آبادی کو شاعر انقلاب ، شاعر شباب ، شاعر خمریات اور شاعر فطرت کے القاب سے جانا جاتا ہے ۔

جوش نے تقسیم ہند کے چند برس بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کی بدولت انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھی بھرپور علمی معاونت کی۔

ان کے شعری مجموعوں اور تصانیف میں نثری مجموعے یادوں کی بارات۔۔ مقالات جوش۔دیوان جوش۔۔ اور شاعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے۔۔ طلوع فکر۔۔جوش کے سو شعر،نقش و نگار اورشعلہ و شبنم شامل ہیں۔

کراچی میں1972 میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست پذیرائی حاصل کی تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

عظیم شاعر جوش ملیح آبادی کا انتقال اسلام آباد میں 22 فروری 1982 کو ہوا تھا ۔

جوش کاخاندانی نام شبیر احمد خاں تھا۔ بعد میں بدل کر شبیر حسن خاں کر دیا گیا تھا۔ ان کی پیدائش پانچ دسمبر 1898 کو ملیح آباد کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر بھی شاعر تھے اور داد انواب احمد خاں کا بھی شاعری سے تعلق تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پر دادا نواب فقیر محمد خاں صاحب دیوان شاعر تھے۔

ملیح آبادی  کے خاندان میں خواتین شاعرات بھی موجو د تھیں۔ جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خاں، مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس طرح جوش کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ لیکن جوش صرف شاعر نہیں تھے ایک ہشت پہلو شخصیت تھے۔ جہاں انہیں شاعری پر زبر دست کمال حاصل تھا۔ وہیں نثر پر بھی انہیں درک تھا۔ ان کی نثر اپنی مثال آپ ہے۔

josh-malih-abadi

جوش کا تعلق فلم اور صحافت سے بھی رہا انہوں نے دہلی سے ایک ادبی رسالہ ” کلیم “ شائع کیا تھا لیکن مالی مشکلات کے سبب بہت دنوں تک جاری نہیں رہ سکا۔ بعد میں وہ بھارت سرکاری کے رسالہ ” آج کل “ کے مدیر بنائے گئے تھے لیکن یہاں بھی زیادہ دنوں نہیں ٹک سکے ۔

در اصل جوش کی طبیعت میں اجتماع ضدین تھا اسی لئے وہ کہیں بھی ٹک کر نہیں رہ سکے، نظام حیدر آباد کے دارالترجمہ میں تھے تو نظام کے خلاف ہی نظم لکھ دی اور انہیں وہاں سے نکالا گیا۔ بعد میں وہ بھارت سرکار کے رسالہ ” آج کل “ کے مدیر ہوئے لیکن سنہ 1955 میں پاکستان ہجرت کر گئے۔ وہاں بھی ان کی وابستگی ترقی اردو بورڈ میں رہی۔ لیکن اختلافات کے سبب ان کو وہاں سے بھی سبکدوش ہونا پڑا۔
جوش نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا تھا اور سنہ 1943 سے سنہ 1948 کے درمیان متعدد فلموں کے گانے اور مکالمات لکھے۔
جوش کے شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:
روح ادب، شاعر کی راتیں، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، حرف و حکایت، آیات ونغمات، عرش وفرش، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو، سرود و سروش، سموم و صبا، طلوع فکر، الہام و افکار، موحد و مفکر، نجوم و جواہر۔

ان کی نثری کتابوں کے نام ہیں:

مقالات زریں، اوراق سحر، ارشادات، اور یادوں کی بارات۔
جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت ہی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔ یادوں کی بارات سنہ 1972 میں کراچی سے شائع ہوئی تھی اور جوش کا انتقال 22 فروری سنہ 1982 کو ہوا۔

ایک طرح سے وہ دس برسوں تک تنازعات میں گھرے رہے اور اس کے باعث انہیں بے حد دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے عتاب کے بھی شکار ہوئے۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جوش جہاں ایک عظیم شاعر تھے وہیں وہ صاحب طرز نثاربھی تھے او رکیوں نہ ہوتے انہوں نے صرف 9 برس کی عمر میں کہا تھا :

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مرا فن خاندانی ہے

لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ شاعری جوش کو راس نہیں آسکی۔ اسی لئے انہیں ’ یادوں کی بارات“ میں لکھنا پڑا:
”آخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس قوم میں کسی صاحب قلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہرادیب و شاعر کو چاہئیے کہ وہ خود کشی فرما لے‘‘

نوٹ:اس تحریر میں انٹر نیٹ مواد سے بھی مدد لی گئی ہے


متعلقہ خبریں