اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ایوان زیریں اورایوان بالا (قومی اسمبلی و سینیٹ) کے مشترکہ اجلا س سے خطاب پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہم نیوز اور ذرائع ابلاغ (میڈیا) سے بات چیت کرتے ہوئے ملے جلے ردعمل کا اظہارکیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے صدر کی تقریر کو اچھا آغاز قراردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تقریر سے قبل احتجاج کرنا مناسب نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان نے اپنی تقریر میں کرپشن کے خاتمے پرکوئی عملی تجویز نہیں دی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر پیسے نہیں ہیں تو لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر ڈیم بنائیں۔
امیرجماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ پارلیمانی کمیشن کا کہا گیا مگر بنانے کا اعلان اب تک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے آج کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب تک معیشت ٹھیک نہ ہو ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ قانون کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ سب کے لئے ہونا چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے دعا کی کہ اللہ کرے صدر کی تقریر پر حکومت عمل کرے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ عوام سے وعدہ کیا گیا ہے کہ انتخابات سے متعلق کمیٹی جلد بنائی جائےگی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے جو بھی فیصلہ ہوا میں اس پر عمل کرونگا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں تو پارٹی کی وجہ سے بندھا ہوا ہوں مگر مجھے کوأی اچھی امید نہیں ہے۔
ایک سوال پر سینیٹر مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ پی ایم ایل (ن) نے جو کیا وہ ان کی اپنی حکمت عملی تھی۔
پی پی پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جو بھی آتی ہے وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بھی نواز شریف کے دور میں یہی کیا تھا جو وہ آج بھگت رہی ہے۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ آج کے اجلاس میں احتجاج اور بائیکاٹ طے شدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی سے متعلق کمیٹی بنانے کا کہا گیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے پر احتجاج کیا۔
سینیٹر اشوک کمار نے واضح کیا کہ اگر کل کے اجلاس سے قبل کمیٹی نہ بنی تو کل بھی احتجاج ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ خود کو جمہوریت کی علمبردار کہتی ہے لیکن اس نے وزیراعظم کے خطاب میں بھی اسی طرح کی ہلڑبازی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان کسی پارٹی کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ وفاق اورپارلیمان کی علامت ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی بھی ایوان میں موجود تھی لیکن اس نے احتجاج نہیں کیا۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین کوچاہیے تھا کہ صدرمملکت کی تقریر سن کر بات کرتے لیکن نہ انہوں نے تقریر سنی، نہ بات کی اورایوان سے چلے گئے۔
ایم این اے زرتاج گل کا دعویٰ تھا کہ ن لیگ کی سیاسی سمت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور وہ صرف ہلڑبازی ڈرامہ کرنے ایوان میں آتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے الزام عائد کیا کہ پی ایم ایل (ن) صرف ہلڑبازی اوراحتجاج پر یقین رکھتی ہے۔
آئین پاکستان کے تحت صدر مملکت جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں تو پارلیمانی سال کا آغاز ہوتا ہے۔