پیچیدہ قوانین، رقم کا غلط استعمال ٹیکس نیٹ محدود ہونے کی وجہ


اسلام آباد/کراچی: پاکستان کے 22 کروڑ کی آبادی میں محض چند لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، پیچیدہ ٹیکس قوانین اور ٹیکس کی رقم کے غلط استعمال کے خدشات کو ماہرین ٹیکس نیٹ کے محدود ہونے کی وجوہات میں اہم اسباب قرار دیتے ہیں۔ 

محصولات سے متعلق اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے 15 لاکھ افراد کی اکثریت تنخواہ دارطبقہ سے تعلق رکھتی ہے یا کثیرالقومی کمپنیاں اس فہرست کا حصہ ہیں۔

حکومت کی جانب سے نیا بجٹ لانے کی خبریں عام ہوئی تو ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ ٹیکس سلیب میں تبدیلی کر کے 12 لاکھ سالانہ آمدن والوں پر عائد ٹیکس کی چرح میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ حکومتی آمدن میں اضافہ کی خواہش کو قرار دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف حکومت ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور ٹیکس کی شرح میں ردوبدل کر کے 800 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل کرنا چاہتی ہے۔

ماہر معیشت اور سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس سلیب میں ردوبدل سے آمدن خاطرخواہ نہیں بڑے گی البتہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو جائے گا۔

وائس چئیرمین پاکستان ٹیکس بارایسوسی ایشن ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے لگژری گاڑیاں خریدنے والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

ہم نیوز کے مطابق ایوان صنعت و تجاوت کراچی میں اس وقت تین ہزار سے زائد تاجر اور صنعت کار رجسٹرڈ ہیں جو بھاری ٹیکس دیتے ہیں۔ ان ٹیکس دہندگان کا کہنا ہے کہ اکثرلوگ اس لئے ٹیکس نہیں دینا چاہتے کہ عوام کا پیسہ عوامی فلاح کے بجائے کرپٹ عناصر کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فیڈر بورڈ آف ریونیور (ایف بی آر) کے قوانین میں ترامیم اور نظام میں واضح شفافیت لا کر ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

دنیا کے ترقی اور غیرترقی یافتہ ملکوں میں ود ہولڈنگ ٹیکسز کے ذریعے محصولات کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پاکستان میں 70 فیصد ادائیگیاں ود ہولڈنگ ٹیکس کےذریعے کی جاتی ہیں۔ اس نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے غلط قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ٹیکس وصولی  کرنے والاوفاقی ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کئی دہائیوں سے سالانہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام نظرآتا ہے۔ ماہرین پیچیدہ نظام اور سیاسی دباؤ کے تحت اثرورسوخ رکھنے والوں کو کھلی چھوٹ دینا ہدف کے حصول میں ناکامی کے بڑے اسباب قرار دیتے ہیں۔

ایف بی آر کے سروے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ شہری ایسے ہیں جن کا لائف اسٹائل شاہانہ  ہے لیکن وہ ٹیکس گوشوارے ہی جمع نہیں کراتے ہیں۔

معاشی ماہرین متفق ہیں کہ قومی آمدن بڑھانے کے لیے شفافیت کو فروغ دینے اور ٹیکس وصولی کے نظام کی پیچیدگیاں ختم کرنا لازم ہے۔

 


متعلقہ خبریں