کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سانحہ بلدیہ کو چھ سال بیت گئے لیکن متاثرہ خاندان سانحہ میں جاں بحق اپنے پیاروں کا غم نہ بھلا سکے وہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں سفاک قاتلوں نے گھناؤنا کھیل کھیلا اور کارخانہ میں کام کرنے والے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلا ڈالا۔
معاملہ کی تفتیش کے دوران واضح ہوا کہ علی انٹرپرائیز میں لگنے والی آگ کے باعث زیادہ اموات ہنگامی اخراج نہ ہونے اور فیکٹری کے عقب میں واقع کھڑکیوں میں لوہے کی سلاخیں لگی ہونے کی وجہ سے ہوئیں۔
فیکٹری میں آگ لگنے کو ابتدائی طور پر حادثہ قرار دیا گیا لیکن تحقیقاتی ٹیموں نے مختلف زاویوں سے کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ فیکٹری میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی تھی۔
ہم نیوز کے مطابق متاثرین کو انصاف دلانے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سنجیدگی کا حال یہ تھا کہ آگ لگائے جانے کا مقدمہ واقعہ کے چار سال بعد درج ہوا۔
اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تو دوسری جانب سانحہ بلدیہ کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کی رپورٹ میں ایم کیو ایم کے گرفتار کارکنوں نے اعتراف جرم کیا کہ ” پارٹی کے ایک عہدیدار” نے فیکٹری کے مالک سے 20 کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا تھا اور فیکٹری مالکان کے انکار پر سیکٹر انچارج اور اس کے ساتھیوں نے فیکٹری کو کیمیائی مادہ چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔
جے آئی ٹی میں گرفتار ایم کیو ایم کے کارکنان نے پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی) کے رہنما انیس قائم خانی اور اُس وقت ایم کیوایم کے صوبائی وزیر رؤف صدیقی کا بھی نام لیا۔
گزشتہ برس قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مفرور ملزمان میں سے حماد صدیقی کو بیرون ملک سے حراست میں لے کر پاکستان منتقل کیا جب کہ مارچ 2018 میں رئیس مما کو بھی ملائیشیا سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا جاچکا ہے۔