اسلام آباد: بھارت کی آبی جارحیت سے پاکستان کی زراعت اور قدرتی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، ایسا کر کے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا انڈیا عالمی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد سے ہی بھارتی آبی جارحیت کا شکار ہے۔ بھارت نے 1947 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کو نو ماہ بعد ہی توڑتے ہوئے مشرقی پنجاب سے پاکستان آنے والی نہروں کو بند کر دیا تھا۔
آزادی کے 13 سال بعد 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ سمیت دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن بھارت اس معاہدے پر بھی قائم نہیں رہا۔
بھارت نے 90 کی دہائی میں دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا کر پاکستان کا 34 لاکھ کیوسک پانی روک لیا جس سے پنجاب کا ایک کروڑ ایکڑ سے زائد کا رقبہ متاثر ہوا۔
اسی طرح بھارت نے 2007 میں کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کر کے پاکستان کے نیلم جہلم کو نقصان پہنچایا۔
عالمی عدالت کے احکامات کے باوجود بھارت پاکستان کے حصے کا آدھا پانی روک رہا ہے جس کے خلاف پاکستان عالمی بینک سے احتجاج بھی کر چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں وولر بیراج بھی سندھ طاس معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔
پانی کے ذخیروں کی صورتحال دیکھی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بھارتی آبی جارحیت سے دریائے ستلج، بیاس اور راوی ریگستان بن رہے ہیں۔ اس سے ناصرف پاکستان میں آبی صورتحال متاثر ہوئی ہے بلکہ خطے کا قدرتی ماحول بھی متاثر ہو رہا ہے۔