کراچی: پاکستان کے معاشی دارالحکومت کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر آنے والی حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو اپنی ترجیح قرار دہتی رہی ہے لیکن عملی طور پر اس اہم منصوبے کی بحالی کے حوالے سے کوئی خاطرخواہ پیش رفت تاحال نہیں ہوئی۔
گذشتہ وفاقی حکومت نے سرکلرریلوے کی بحالی کو سی پیک منصوبہ کا حصہ تو بنایا لیکن تاحال منصوبہ کاغذات تک ہی محدود ہے اور کراچی کے شہری با عزت سفر کرنے سے محروم ہیں۔
کراچی کا شمارملک کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں کے شہریوں کو ماضی میں بہترین سفری سہولیات حاصل تھیں۔ 140 کلو میٹر طویل کراچی سرکلر ریلوے ان میں سے ایک تھا۔
کراچی سرکلر ریلوے کی ابتداء 1962میں اس وقت ہوئی جب پاکستان ریلوے نے سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ اسٹیشن تک میٹروٹرین کی کامیاب تجرباتی سروس شروع کی۔ 1969 میں منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے شہر کے اطراف 140 کلو میٹر کا ٹریک بچھا کر 23 نئے اسٹیشن بنائے گئے، 1970 تک مجموعی طور پر یومیہ 140 ٹرینیں لاکھوں شہریوں کو مرکز شہر تک لاتی اور لے جاتی تھیں۔
1990 کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے کی آمدنی میں واضع کمی آنا شروع ہوئی اور یوں 1994 تک کراچی سرکلر ریلوے بدترین مالی بحران کا شکار ہوا اورٹرینیں بند کر دی گئیں۔ 1999 میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر کے شہریوں کو نجی ٹرانسپورٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
2012 میں جاپان کی ڈونر ایجنسی جائیکا نے 260 ارب روپے کی لاگت سے سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ شروع کرنے کی پیشکش کی۔
منصوبے کے پہلے مرحلے میں حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے کے لئے مختص 360 ایکڑ زمین پر بنے سات ہزار سے زائد غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنا تھا لیکن یہاں بھی سیاسی مصالحت آڑے آئی اور دو سال انتظار کرنے کے بعد جائیکا نے اپنی پیشکش واپس لے لی۔
گذشتہ حکومت نے سرکلر ریلوے کی بحالی کو سی پیک منصوبہ کا حصہ تو بنایا لیکن تاحال کوئی ٹھوس پیش رفت سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے نظر نہیں آرہی ہیں۔