نواز شریف کا کل بھی عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: نیب کی جانب سے دائر کردہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ ریفرنسسز کے ملزم سابق وزیراعظم نواز شریف نے کل جمعرات کو جیل میں ملاقاتوں کا دن ہونے کے باوجود احتساب عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کل جمعرات کو جیل میں ملاقاتوں کا دن ہونے کے باوجود احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوں گے۔ نوازشریف نے وکلاء کو کل کی حاضری سے استثناء کی درخواست دائر کر نے سے روک دیا۔

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی، اس دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ کسی کاروبار کا نیٹ پرافٹ نکالنے کیلئے کیش فلو میں کیا جمع منفی کیا جاتا ہے؟ جس کے جواب میں واجد ضیاء نے کہا کہ جو سوال پوچھا جارہا ہے اس کا تو ہماری رپورٹ میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ سوال بنتا ہی نہیں، ہم نے کل بھی اس پر اعتراض کیا تھا، آڈٹ بیورو کی رپورٹ سے نیٹ پرافٹ دفاع (شریف خاندان یا وکلاء) نے جے آئی ٹی کو فراہم کیا تھا۔ نیٹ پرافٹ کا موازنہ اس رقم سے کیا گیا جو نوازشریف کو بھیجی گئی، موازنے سے پتہ چلا کہ نیٹ پرافٹ کا 88 فیصد نوازشریف کو بھیجا گیا، نیٹ پرافٹ کیسے نکلا، اس پر تو ہماری ورکنگ ہی نہیں۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے واجد ضیاء سے کہا کہ سوال کا جو جواب بنتا ہے وہ دے دیں، یہ کوئی پیپر تو ہے نہیں کہ فیل ہوجائیں گے۔

واجد ضیاء نے کہا کہ میں نے سوال پڑھ لیا ہے اور سمجھ بھی لیا، یہ جو پوچھ رہے ہیں اس کا ہمارے فسانے میں کہیں ذکر ہی نہیں۔ جس پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے کہا کہ میں وہ سوال بھی پوچھ سکتا ہوں جس کا بیان میں آپ نے ذکر بھی نہ کیا ہو۔

العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کی احتساب عدالت میں سماعت کے موقع پر نواز شریف کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ ان کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیا پر جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں رقوم کی منتقلی اور کیش فلو کے ذریعے کس بنیاد پر منافع کا تعین کیا گیا؟ جس کے جواب میں واجد ضیاء نے کہا کہ یہ اکاؤنٹنگ سے متعلق مفروضے پر مبنی سوال پوچھ رہے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ آڈٹ بیورو کے اعدادو شمار نیٹ پرافٹ کی صورت میں ملے جن کا رپورٹ میں ذکر ہے، نیٹ پرافٹ کیسے نکالا گیا؟ یہ جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ نہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیا کیش فلو کا ذکر رپورٹ سے غیر متعلق ہے؟ جے آئی ٹی رپورٹ میں کیش فلو کا ذکر ہے، اسی سے متعلق سوال پوچھ رہا ہوں۔

نیب پراسیکیوٹر نے اپنے جواب میں کہا کہ نیٹ پرافٹ کا بھجوائی گئی رقوم کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے کہ منافع کی کتنے فیصد رقم بھجوائی گئی۔

احتساب عدالت کے جج نے کہا نیٹ پرافٹ کیسے نکالا گیا؟ اس سوال کا جواب ہے تو بتا دیں، اگر نہیں معلوم تب بھی بتا دیں کہ اس کا جواب نہیں آتا، ایسی بات تو نہیں ہے کہ جواب نہ آیا تو پیپر میں فیل ہو جائیں گے۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کیا کہ یہ بات غیر متعلق ہے۔

واجد ضیاء نے اعتراض کیا تو خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ یہ سوال کیوں پوچھا جا رہا ہے، صرف پراسیکیوٹر کو سوال پر اعتراض کا حق ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیٹ پرافٹس کیسے نکلے؟ یہ ہمیں نہیں معلوم، ہمارے پاس تو صرف اعدادو شمار آئے۔ اس پر نواز شریف کے معان وکیل محمد زبیر خالد نے کہا کہ تو پھر گواہ یہی بات جواب کے طور پر لکھوا دے۔

جرح کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے واجد ضیاء نے کہا کہ ہم نے الدار آڈٹ بیورو سے اعدادوشمار حاصل کیے تھے، خالص منافع کی جمع تفریق سے متعلق سوال اسی فرم سے پوچھا جا سکتا ہے، میں اس پوزیشن میں نہیں کہ منافع یا کیش فلو کا کلیہ بتا سکوں۔

خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ کیا کیا آپ کی رپورٹ میں کیش فلو کی اصطلاح استعمال ہوئی؟ کیا آپ نے کسی سے پوچھا کہ کیش فلو کیا ہے؟ جس کے جواب میں واجد ضیاء نے کہا کہ مجھے اپنی ضرورت کی حد تک سمجھ آ گئی تھی کہ کیش فلو کیا ہے۔

احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ واجد ضیاء نے معاشی معاملات پر پی ایچ ڈی تو نہیں کر رکھی۔

خواجہ حارث نے الگ سوال میں پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ہل میٹل کے آپریشن اور حاصل کیش سے متعلق کوئی مواد ہے؟ جس کے جواب میں واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق کوئی قابل اعتبار دستاویزات نہیں ملیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرا سوال یہ نہیں تھا کہ قابل اعتبار دستاویزات ملیں یا نہیں، میرا سوال یہ تھا کہ اس کے متعلق جے آئی ٹی نے کوئی مواد اکٹھا کیا یا نہیں؟

واجد ضیاء نے بتایا کہ کچھ سورس دستاویزات ضرور ملی تھیں، جنوری سے جولائی 2011 تک کی کیش فلو اسٹیٹمنٹ ایک سورس دستاویز کے ذریعے ملی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ فرد جرم سے باہر نہیں جا سکتے، جس پر عدالت نے کہا کہ دفاع کی جانب سے کوئی بھی سوال پوچھا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کے ملزم نواز شریف کو سخت سیکیورٹی میں آج چھٹی بار عدالت میں پیش کیا گیا جس کے لیے انہیں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت پہنچایا گیا۔

نوازشریف کو سخت ترین سیکورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت روانہ کیا گیا۔ گزشتہ دنوں کے برعکس نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لایا گیا جب کہ ان کے قافلہ میں موبائل جیمرز اور ایمبولنس بھی موجود تھی۔


متعلقہ خبریں